Maktaba Wahhabi

132 - 589
مجموعے سے تواتر اور علمِ قطعی حاصل ہو جاتا ہے۔[1] ارکانِ اسلام کا تارک کافر ہے اور اس کا خون اور مال حلال ہے: وہ بادیہ نشین جو کثیر تعداد میں روے زمین پر موجود ہیں اور صرف شہادتین کے تلفظ اور کلمہ شہادت پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں ، وہ ارکانِ اسلام، بلکہ تمام فرائض کے تارک ہیں اور جو اقوال و افعال ان پر واجب ہیں ، ان کے بھی تارک ہیں اور سواے کلمہ پڑھنے کے ان کے پلے کوئی چیز نہیں ہے، یقینا وہ کافر ہیں اور ان کا خون اور مال حلال ہے، کیوں کہ خون اور مال تب محفوظ ہوتے ہیں جب انسان ارکانِ اسلام پر کار بند ہو۔ ایسے لوگوں سے متعلق حکم یہ ہے کہ انہیں وعظ و نصیحت کے ذریعے راہِ راست پر لایا جائے اور اگر وہ سیدھی راہ پر نہ لگیں اور کفر پر مصر رہیں تو ان کے ساتھ قتال کرنا درست ہے، کیوں کہ وہ اہلِ جاہلیت کے حکم میں ہیں ۔ کلمہ گو کافروں سے قتال کس کی ذمے داری ہے؟ حق تو یہ ہے کہ آیات و احادیث نبویہ کے مطابق ایسے لوگوں کے ساتھ قتال کرنا امامِ وقت کی پابندی کے بغیر مطلق طور پر ہر مومن پر واجب ہے۔ (ذکرہ الشوکاني رحمہ اللّٰه ) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اہلِ سنت و جماعت کا مذہب، جس پر اہلِ حق سلف و خلف کار بند ہیں ، یہ ہے کہ جو شخص موحد ہو کر فوت ہوا، وہ قطعی طور پر ہر حال میں جنت میں جائے گا۔ پھر اگر وہ گناہوں سے محفوظ ہے، جیسے چھوٹا بچہ اور مجنون، یا اگر گناہ سرزد ہوا ہے تو اس سے سچی توبہ کر چکا ہے اور شرک وغیرہ جیسے گناہوں سے محفوظ ہے، جبکہ اس نے توبہ کے بعد کسی معصیت کا بھی ارتکاب نہیں کیا یا وہ ایسا صاحبِ توفیق ہے کہ سرے سے گناہ میں مبتلا ہی نہیں ہوا تو ان تمام اقسام کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور جہنم میں ہر گز نہیں جائیں گے۔ ہاں دوزخ پر ان کا صرف ورود ہو گا۔ اس ورود میں بھی اختلاف ہے، لیکن صحیح موقف یہ ہے کہ اس سے مراد پل صراط پر سے گزرنا ہے جو جہنم کی پشت پر رکھا جائے گا۔ أعاذنا اللّٰہ منھا و من سائر المکروہ۔
Flag Counter