Maktaba Wahhabi

135 - 589
جنت میں داخل ہو تو یہ اس شخص کے ساتھ خاص ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ذکر کیا ہے اور ایمان و توحید کی حقیقت کو شہادتین کے ساتھ ملایا ہے، مثلاً ایسے شخص کو اتنا اجر ملے جو اس کے گناہوں پر بڑھ جائے اور اس کی بخشش، رحمت اور دخولِ اول کا موجب اور سبب بنے۔‘‘ انتھیٰ کلام القاضي عیاض رحمہ اللّٰہ ۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ نہایت شاندار اور عمدہ کلام ہے۔[1] ایمان باللہ پر استقامت کی اہمیت و فضیلت: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ میں نے عرض کی: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل افضل ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((اَلْإِیْمَانُ بِاللّٰہِ)) ’’اللہ پر ایمان لانا۔‘‘[2] (رواہ مسلم) اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ عمل کا اطلاق ایمان پر ہوتا ہے۔ اس سے مراد۔ واللّٰہ أعلم۔ وہ ایمان ہے جو انسان کو ملت اسلامیہ میں داخل کر دے، یعنی دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے کلمہ شہادتین پڑھنا۔ لہٰذا تصدیق دل کا کام ہے اور نطق و کلام زبان کا عمل ہے۔ سیدنا سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کی تھی کہ مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد میں کسی سے سوال نہ کروں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: ((قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ)) ’’(اے سفیان!) کہہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر استقامت اختیار کر۔‘‘ (رواہ مسلم) [3] قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جو امع الکلم میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا﴾ [حم السجدۃ: ۳۰] [بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے] یعنی اللہ کو ایک جانا، پھر اس پر ایمان لایا، پھر اسی توحید و ایمان پر استقامت اختیار کی، توحید
Flag Counter