Maktaba Wahhabi

256 - 589
[اہلِ علم وہ بات لکھتے ہیں جو ان کے حق میں ہوتی ہے اور وہ بات بھی لکھتے ہیں جو ان کے خلاف ہوتی ہے جب کہ اہلِ بدعت صرف وہی بات لکھتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوتی ہے] امام ابن عُیَینہ رحمہ اللہ وغیرہ سلف کا قول ہے: ’’إنّ من فسد من علمائنا ففیہ شبہ من الیھود، ومن فسد من عُبّادنا ففیہ شبہ من النّصاریٰ‘‘[1] [ہمارے علما میں سے کسی کے اندر بگاڑ پیدا ہوا تو اس میں یہود کی مشابہت ہے اور ہمارے عبادت گزاروں میں سے کسی میں بگاڑ پیدا ہوا تو یہ نصاریٰ کی مشابہت ہے] امام ابن عُیَینہ رحمہ اللہ کے اس قول کو ’’الفوز الکبیر‘‘ میں بھی فصیح فارسی عبارت میں نقل کیا ہے اور پھر اس مشابہت کا قدرے ایضاح فرمایا ہے۔[2] اس جگہ ہماری غرض مراتبِ اختلاف وافتراق کا استیعاب کرنا ہے نہ مدارجِ نزاع وشقاق کا استقصا کرنا اور نہ مشابہت ومضاہات کا بطور استقرا بیان کرنا مقصود ہے، کیونکہ یہاں اجمال کا احاطہ کرنا مشکل ہے، پھر تفصیل کا کیا ذکر ہے، خصوصاً جب کہ اس بیان کے ہمراہ تاویلِ تنزیل، تحریفِ تاویل اور انتحالِ مبطلین کا انضمام بیان بھی وقوع میں آئے، بلکہ ہمارا مقصود معاملے کی طرف مختصر اشارات کرنا ہے، تا کہ جب کوئی ہوش مند اُس میں امعانِ نظر اور جولانِ فکر کرے تو ان امور منکرہ سے محتاط اور خائف ہو جائے، خصوصاً اس عصر میں کہ اُس کے اندر دین کے ساتھ تمسک کرنا ایسا سخت مشکل ہو گیا ہے جیسے ہاتھ میں چنگاری لینا، سو اس حال میں طالب آخرت پر یہی واجب ہے کہ اپنے نفس پر صبر لازم کرے، تا کہ اللہ کے نزدیک اجر کبیر پائے اور رحمٰن رحیم کے سامنے تضرع کرے کہ مجھے سیدھی راہ دکھا اور سنن قویم پر قائم رکھے: ﴿وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ﴾ [فصلت: ۳۵] [اور یہ بات انھیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے بڑے نصیبے والوں کے سوا کوئی نہیں پا سکتا] دورِ فتن: یہ وہ وقت ہے جس میں ہر معاملہ خطیر ہو گیا ہے اور حالات خوف ناک شکل اختیار کر چکے
Flag Counter