Maktaba Wahhabi

307 - 589
اس امت نے سب سے پہلے سنت صحیحہ مطہرہ کے خلاف اور اس کے برعکس جو کام کیا، وہ یہ تھا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبرِ منور، مرقدِ مطہر، مشہدِ معطر اور تربتِ مقدس پر یہ عمارت بنائی اور اس کام کا آغاز خیر القرون کا دور ختم ہونے سے پہلے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور ختم ہونے کے بعد ہوا۔ پھر اس کے بعد تو روے زمین کے تمام اطراف میں گویا شر اور شرک کا دروازہ ہی کھل گیا اور اس شرک نے مشرق ومغرب اور دیہات وشہر؛ ہر جگہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فإنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ قبروں کی آرایش شرک کی بنیاد ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس مسئلے کا بڑا اہتمام فرماتے کہ کوئی بلند قبر نہ چھوڑی جائے، بلکہ ایک بالشت سے بلند قبر کو برابر کر دیا جائے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہلِ بیت میں سے تھے، اس کام پر مامور کیا تھا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اپنے داماد ابو الہیاج اسدی کو اس کام کے لیے مقرر کیا تھا، جیسا کہ صحیح مسلم میں موجود ہے۔[1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری ایک جماعت سے اس مسئلے سے متعلق احادیث مروی ہیں ، جن کو ہم نے اپنی بہت سی تالیفات میں مکمل طور پر بیان کیا ہے۔ یہ بدعت عظمیٰ اور فتنہ کبریٰ، جو روے زمین کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں پھیل چکا ہے، امت کے سلف و خلف اس میں گرفتار ہیں اور مُردوں کے حق میں ان کا عقیدہ اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ اس سے ایمان کا چہرہ مخدوش اور اسلام کا دست راست مجروح ہو چکا ہے۔ اس بدعت کی جڑ اور بنیاد یہی قبروں کو پختہ بنانا، ان پر خوش نما قبے تعمیر کرنا، ان قبروں کے زائرین کو قبروں سے دہشت زدہ کرنا، ان کے دلوں میں مردوں کی ہیبت ڈالنا اور ان کی تعظیم کروانا ہے۔ کوئی عقل مند انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مذکورہ افعال ہی فاسد اور غلط اعتقادات کو جنم دینے اور اخلاصِ توحید کے مخالف مصائب میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہیں ۔ جس شخص کو اس بات میں شک ہو اور اس کی عقل باور نہ کرے اور اس کا دل اس کا انکار کرے تو اسے چاہیے کہ وہ تفتیش کرے، جس کا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ وہ عام لوگوں سے پوچھ گچھ کرے اور ان کے عقیدے کو ٹٹول کر دیکھے، تو لازمی طور پر اسے افراد عامہ میں سے ہر فرد کے پاس سے یہ اعتقاد وبدعت ملے گی۔
Flag Counter