Maktaba Wahhabi

329 - 589
شفاعت کی نفی کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ سنن ابی داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: ’’إنا نستشفع باللّٰه علیک ونستشفع بک علی اللّٰہ‘‘ [ہم اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بطور سفارشی لاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کے پاس سفارشی بنا کر لے جاتے ہیں ] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( شَأْنُ اللّٰہِ أَعْظَمُ مِنْ ذٰلِکَ، إِنَّہٗ لَا یُسْتَشْفَعُ بِہٖ عَلیٰ أَحَدٍ مِّنْ خَلْقِہٖ )) [1] [اللہ کی شان اس سے بلند اور بڑی ہے کہ اللہ کو اس کی مخلوق میں سے کسی کے پاس سفارشی بنایا جائے] آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اس بات کو برقرار رکھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کے ہاں سفارشی ٹھہرائے۔ اس اجمال کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ 4۔ توسل: توسل کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق میں سے کسی کو مطلب برآری کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ ٹھہرانا۔ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا وسیلہ ڈالنا جائز ہے؟ امام عزالدین بن عبدالسلام رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’إنہ لا یجوز التوسل إلی اللّٰه تعالیٰ إلا بالنبي صلی اللّٰه علیہ و سلم إن صح الحدیث فیہ‘‘[2] [اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا وسیلہ ڈالنا جائز ہے اگر اس بارے میں حدیث صحیح ہے] اس عبارت میں امام عز الدین رحمہ اللہ کا اشارہ شاید اس حدیث کی طرف ہے جسے امام نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے کہ ایک نابینے آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اندھا ہو گیاہوں ، لہٰذا آپ میرے لیے دعا کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تو دو رکعت نماز ادا کر اور کہہ:
Flag Counter