Maktaba Wahhabi

330 - 589
(( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ إِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ، یَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَشْفَعُ بِکَ فِيْ رَدِّ بَصَرِيْ، اَللّٰھُمَّ شَفِّعِ النَّبِيَّ فِيَّ )) [1] [اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے سے تیری طرف توجہ کرتا ہوں ۔ اے محمد! میں آپ کے ساتھ اپنی نظر لوٹانے کی سفارش کرتا ہوں ۔ اے اللہ! نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما] نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا: اگر تجھے کوئی حاجت اور ضرورت ہوا کرے تو اسی طرح کیا کرو۔ نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اسے بینا کر دیا۔ حدیث کا مطلب: اس حدیث کے متعلق اہلِ علم کے دو قول ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ وہی توسل ہے جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کیا تھا اور فرمایا تھا: ’’کنا إذا أجدبنا نتوسل بنبینا إلیک فتسقینا، وإنا نتوسل إلیک بعم نبینا‘‘[2] [جب ہم خشک سالی میں مبتلا ہوتے تھے تو اپنے نبی کو تیری طرف وسیلہ بنایا کرتے تھے، پس تو ہم پر بارش برساتا تھا اور اب ہم اپنے نبی کے چچا کے ساتھ وسیلہ پکڑتے ہیں ] اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں استسقا کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے توسل کرتے تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے یہ توسل کرتے تھے۔ اس توسل کا مقصد اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ سب لوگ عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر دعا کرتے، گویا عباس رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کی طرف ان کا وسیلہ تھے اور وہ ایسی صورت میں ان کے سفارشی اور داعی ہوا کرتے تھے۔ اہلِ علم کا دوسرا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی غیر موجودگی میں توسل ہو سکتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں آپ کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کسی دوسرے کے ساتھ توسل کرنا
Flag Counter