Maktaba Wahhabi

334 - 589
دوسروں کا ذکر ہی کہاں ؟ مگر ہر مسلمان یہ بات جانتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں نفیِ توسل کی کوئی تصریح نہیں ہے۔ متوسل تو صرف اتنا کام کرتا ہے کہ وہ کسی چیز کی طلب سے پہلے اجابت و قبولیت کے سبب کو آگے کر دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ یہ طلب کس سے کرتا ہے؟ تو وہ اسی کے سامنے یہ طلب پیش کرتا ہے جو عطا و منع کے ساتھ منفرد ہے اور جزا و سزا کے دن کا مالک ہے، لہٰذا اس کی یہ طلب صرف اسی سے ہوتی جو صاحب امرو نہی ہے، نہ کہ کسی اور سے۔ میں کہتا ہوں : یہ بات درست ہے کہ مذکورہ دلائل سے توسل کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ ان سے شرک کی نفی ثابت ہوتی ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ سد ذریعہ کے لیے جوازِ توسل کے دلائل کو ان کے جائے ورود پر ہی منحصر کرنا ضروری اور لازمی ہے، اس لیے کہ خیر القرون میں اس توسل کا شیوع اور رواج نہیں تھا اور جہاں تک شخصی فیصلوں کا تعلق ہے تو ان پر کسی چیز کو قیاس نہ کرنا ہی احوط و اولیٰ ہے۔ ایک بات اور یاد رکھنی چاہیے کہ جواز اور چیز ہے اور اس کو ضروری سمجھ کر اس کا التزام کرنا ایک دوسری چیز ہے۔ توسل سے بڑی ایک مصیبت: محض توسل و تشفع سے بڑی مصیبت اور سخت بلا وہ امر ہے جس میں عوام و خواص گرفتار ہیں ۔ وہ امر یہ ہے کہ اہلِ قبور اور زندہ نیک لوگوں کے حق میں لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جو قدرت حاصل ہے اور اللہ تعالیٰ جو کام کرتا ہے، وہ کام یہ بھی کر سکتے ہیں ، حتی کہ یہ بات ان کے دلوں سے نکل کر ان کی زبان پر بھی آ گئی، چنانچہ کوئی تو انھیں اللہ کے ساتھ پکارتا ہے اور کوئی مستقل طور پر انھیں ہی پکارتا ہے۔ کوئی ان کے نام کی دہائی دیتا ہے اور مالکِ نفع وضرر جیسی ان کی تعظیم کرتا ہے اور دعا میں جتنا خضوع اللہ کے لیے نہیں کرتا، اس سے زیادہ خشوع و خصوع ان کے لیے کرتا ہے۔ اب غور فرمائیے! اگر یہ شرک نہیں تو پھر ہم نہیں جانتے کہ شرک کیا ہے؟ اور اگر یہ کفر نہیں ہے تو پھر دنیا میں کفر موجود ہی نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں تو ان امور سے بھی منع کیا گیا ہے جو ان باطل معتقدات سے کہیں کم تر
Flag Counter