Maktaba Wahhabi

337 - 589
(( اِجْعَلْ لَنَا إِلٰہًا کَمَا لَہُمْ آلِہَۃٌ، قَالَ: إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ )) [ہمیں بھی اس طرح کا کوئی الہ ومعبود بنا دیجیے جس طرح ان کے الہ ومعبود ہیں ۔ فرمایا: تم تو نرے جاہل لوگ ہو] پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تم بھی پہلے لوگوں کے راستے پر چل پڑو گے۔‘‘[1] اب ذرا غور کیجیے! صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فقط اتنی بات چاہی تھی کہ ہتھیار لٹکانے کے واسطے ہمارے لیے ایک درخت مقرر ہو جائے، جس طرح اہلِ جاہلیت کا ایک درخت تھا۔ ان کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ ہم اس درخت کو پوجیں یا گور پرست جو چیز اہلِ قبور سے مانگتے ہیں وہ ہم اس درخت سے مانگیں ، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں بتایا کہ یہ کام شرکِ صریح کے برابر اور غیر اللہ کو معبود ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ غیر اللہ کے لیے ذبیحہ اور نذرانہ شرک ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے، جو غیر اللہ کے لیے کوئی جانور ذبح کرے، اور اس پر جو اپنے ماں باپ پر لعنت کرے، اور اس پر جو کسی بدعتی کو جگہ دے، اور اس پر جو زمین کے نشان کو بدل ڈالے۔‘‘ (رواہ مسلم) [2] سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ ایک مکھی کی وجہ سے ایک شخص جنت میں اور ایک شخص جہنم میں چلا گیا۔ پوچھا: وہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دو آدمیوں کا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا، جن کا ایک بت تھا۔ جب تک کوئی شخص اس بت پر کسی چیز کا چڑھاوا نہ چڑھاتا تو وہاں سے گزر نہ پاتا۔ انھوں نے دو گزرنے والوں میں سے ایک شخص سے کہا: اس بت کے نام کا نذرانہ پیش کرو، خواہ ایک مکھی ہی ہو۔ ایک شخص نے ایک مکھی چڑھائی تو انھوں نے اسے جانے دیا، پس وہ اس عمل کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گیا۔ پھر انھوں نے دوسرے سے کہا کہ نذرانہ پیش کرو۔ اس نے کہا: میں کسی صورت بھی غیر اللہ کے لیے کوئی نذرانہ نہیں دوں گا۔ تو
Flag Counter