Maktaba Wahhabi

342 - 589
حکایت: ہم نے بعض تاریخ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ کسی بادشاہ کا ایک قاصد عباسی خلیفہ کے پاس آیا تو بادشاہ نے اپنے رعب ودبدبے سے اسے دہشت زدہ کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ خلیفہ کے اعوان و خدام قاصد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے، یہاں تک کہ جب وہ اس مجلس اور برج میں پہنچا جو خاص خلیفہ کی نشست کے لیے تیار کیا گیا تھا اور وہ جگہ نہایت آراستہ تھی، وہاں پر خلیفہ کی اولاد اور اعیانِ مملکت بیٹھے ہوئے تھے، جب خلیفہ نے اس برج سے اس قاصد کی طرف جھانک کر دیکھا تو اس ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر اس بیچارے کا دل گھبرا گیا۔ جب خلیفہ پر اس کی نظر پڑی تو وہ ہاتھ تھامنے والے امیر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: کیا یہ اللہ ہے؟ امیر نے جواب دیا: نہیں ! بلکہ یہ خلیفۃ اللہ ہے۔ غور کریں کہ اس تزیین اور آرایش نے اس بیچارے مسکین کی کیا حالت بنائی؟ ایسے ہی ایک شخص امام احمد بن حسین کے قبے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک عالی شان عمارت ہے، اس پر پردے لٹکے ہوئے ہیں ، اس کے ارد گرد چراغ روشن ہیں اور ہر طرف خوشبوئیں سلگ رہی ہیں ، دروازے پر پہنچ کر وہ کہنے لگا: ’’أمسیت بالخیر یا أرحم الراحمین!‘‘ [اے ارحم الرحمین! تو خیریت کے ساتھ شام کرے!] تعظیمِ صلحا شرک کی بنیاد ہے: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کریمہ: ﴿ لاَ تَذَرُنَّ اٰلِھَتَکُمْ وَلاَ تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلاَ سُوَاعًا وَّلاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا﴾ [نوح: ۲۳] [تم ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ کبھی ودّ کو چھوڑنا اور نہ سواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو] کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس آیت میں ذکر کردہ بتوں کے نام نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام ہیں ، جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے قومِ نوح علیہ السلام کو یہ پٹی پڑھائی کہ جس جگہ یہ لوگ بیٹھتے تھے تم وہاں پر کچھ پتھر کھڑے کرو اور انھیں بزرگوں جیسا ان کا نام رکھو، چنانچہ قوم نے ایسا ہی کیا، لیکن ان کی پوجا و پرستش نہ کی۔ جب وہ قوم گزر گئی اور بعد والوں کو یہ بات بھول گئی اور انھیں
Flag Counter