Maktaba Wahhabi

345 - 589
[میں شرک والوں کے شرک سے بے پروا ہوں ، جو آدمی میرے لیے کوئی ایسا کام کرے جس میں میرے علاوہ کوئی میرا شریک بنائے تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں ] ریا کاری شرک اصغر ہے: سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کیا میں تمھیں اس چیز کی خبر نہ دوں ، جس کا مجھے تم پر مسیح دجال کے فتنے سے بھی زیادہ ڈر ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ شرک خفی ہے۔ بندہ نماز میں کھڑا ہو کر اس لیے اپنے آپ کو سنوارتا ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس پر نظر رکھے ہوئیہے۔ (رواہ احمد) [1] اس سے مراد عمل میں ریا کاری ہے اور ریاکاری شرکِ خفی ہے، اس کا فتنہ دجال کے فتنے سے زیادہ خوف ناک ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾ [الکھف: ۱۱۰] [پس جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے] اس آیت میں شرک سے مراد ریا کاری ہے۔ جب اطاعتِ الٰہی کے کسی عمل میں محض ریا کاری شرک ٹھہرتا ہے، اس لیے کہ اسے کسی دوسرے کا اس عمل کو دیکھنا محبوب ہے اور وہ اس کی ثنا اور تحسین چاہتا ہے تو پھر جو کام خالص شرک ہے، اس کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ مشیتِ الٰہی میں شرک کی ایک صورت: ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آ کر [بطور اعتراض] کہا: تم یوں کہتے ہو: ’’ماشاء اللّٰه و شئت‘‘ [جو اللہ اور تم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) چاہو] نیز تم کہتے ہو: ’’والکعبۃ‘‘ [کعبہ کی قسم!]۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ یوں کہا کریں : (( وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ )) [کعبہ کے رب کی قسم!] اسی طرح یہ الفاظ استعمال کیا کریں : ((مَاشَائَ اللّٰہُ ثُمَّ مَا شِئْتَ )) [جو اللہ چاہے، پھر جو آپ چاہیں ] (أخرجہ النسائي) [2]
Flag Counter