Maktaba Wahhabi

375 - 589
اور غیر ائمہ اربعہ کے احوال سے واقف کار شخص کے نزدیک مردود ہے، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک کے پیچھے آنے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان سے زیادہ علم رکھتے ہیں ۔ اس کا انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو معاند اور جاہل ہو۔ جب ان ائمہ کے متبعین میں ان سے بڑے عالم موجود ہیں تو ان لوگوں کا کیا ذکر جو ان سے پہلے تھے یا ان کے ہم عصر تھے یا ان کے بعد دنیا میں آئے؟! اگر ائمہ اربعہ کی یہ خوبی کثرت ورع و عبادت کے اعتبار سے ہے تو بھی وہی بات ہے، کیونکہ ان کے معاصرین، متقدمین اور متاخرین میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عبادت و ورع میں ان سے آگے ہیں ۔ وہی شخص اس بات کا انکار کر سکتا ہے جو تاریخ اور رجال کے تراجم کی کتابوں سے واقف نہیں ہے۔ اگر ائمہ مذکورین کی خوبی کچھ اس بنا پر ہے کہ ان کا زمانہ متقدم ہے تو صحابہ و تابعین ان سے بھی پہلے زمانے میں تھے اور اس میں کسی کا خلاف نہیں ہے، تو اس اعتبار سے وہ بہ نسبت ان لوگوں کے، جو ان کے بعد آئے ہیں ، اس مزیت و خوبی کے زیادہ حق دار ٹھہریں گے، جس کی دلیل یہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: (( خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِيْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ )) [1] [زمانوں میں سے بہترین زمانہ میرا ہے، پھر ان کا جو ان کے بعد ہیں ، پھر ان کا جو ان کے بعد ہیں ] اگر ان چار اماموں کی خوبی کسی عقلی چیز کی وجہ سے ہے تو براہِ کرم اسے بیان کرنا چاہیے اور اگر کسی شرعی امر کے سبب سے ہے تو بتایا جائے کہ وہ امرِ شرعی کیا ہے؟ تعصب کی مذمت: ہمیں اس بات کا ہر گز انکار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ائمہ موصوفین کو علم و ورع عطا کیا تھا، وہ دین میں صلابت رکھتے تھے اور فضائل میں سبقت کرنے والوں میں سے تھے، لیکن گفتگو تو اس تعصب میں ہے جو ان کے اَتباع ان کے لیے ظاہر کرتے اور کہتے ہیں کہ ان کے سوا کسی اور کی تقلید جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی ان سے اختلاف کرے تو اس کا اختلاف قابلِ اعتبار و لائقِ اعتماد نہیں ہو سکتا ہے اور کسی مسلمان عالم کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ ان کی تقلید سے باہر رہے، اگرچہ وہ عالم بذات خود کتاب و سنت کا عارف کیوں نہ ہو اور قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط و استخراج کرنے کی
Flag Counter