Maktaba Wahhabi

382 - 589
[اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے] اس آیت میں ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور رازقیت وغیرہ کا اقرار ہے، اس میں توحیدِ الوہیت کا اقرار نہیں ہے، کیونکہ کفار اپنے اوثان کو ارباب ٹھہراتے تھے، جیسا کہ ابھی معلوم ہوا۔ لہٰذا یہ جاہلی کفر، کفرِ اعتقاد ہے اور اس سے عملی کفر لازم آتا ہے، برخلاف اس شخص کے جو اولیا کے حق میں نفع و ضرر کا اعتقاد رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ موحد ہے اور اللہ، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والا ہے، لہٰذا یہ کفر عمل ہے، کفر اعتقاد نہیں ہے۔ پس یہ انتہائی درجے کی تحقیق ہے اور کمی و بیشی کے بغیر حق کی وضاحت ہے۔ مذکورہ بالا اعتراضات کا جواب: اب میں کہتا ہوں کہ جب مذکورہ کلام کی تحقیق کی جائے تو وہ ’’تحقیق بالغ‘‘ نہیں بلکہ کلام متضادہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفر دو قسم کا ہے، ایک کفرِ اعتقاد اور دوسرا کفرِ عمل، لیکن یہ دعوی کہ ان گور پرستوں کے افعال و اعمال کفرِ عمل کی جنس سے ہیں ، نہایت غلط ہے، کیونکہ اسی بحث میں مدعی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ اولیا کے معتقد کا کفر، کفر عملی ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ اولیا کے معتقد کے کفر کا نام اعتقاد رکھا ہے، پھر اسی کو کفر عمل کہا ہے، یہ تو محض تنا قض بحث ہے۔ اب دیکھو کہ بحث کے آغاز میں یہ ذکر کیا تھا: ’’جو شخص اولیا کو پکارتا ہے اور سختی کے وقت ان کی دہائی دیتا ہے، ان کی قبروں کا طواف کرتا ہے، ان کی دیواروں کو چومتا ہے اور کچھ مال ان کی نذر کرتا ہے، اس کا کفر عملی ہے۔‘‘ کاش! مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ اس شخص کو کس چیز نے اس دعا، استغاثہ، دیواروں کو چومنے اور نذریں ماننے پر آمادہ کیا ہے؟ کیا اس کا یہ کام کسی عقیدے اور نظریے کے بغیر محض لعب و عبث ہے؟ کیونکہ یہ کام وہی کرے گا جو دیوانہ ہو گا۔ اگر اس کام کا حامل اور باعث اعتقادِ میت ہے تو پھر یہ کفر اعتقاد کیوں نہیں ہو گا؟ کیونکہ اگر اعتقاد نہ ہوتا تو اس سے یہ افعال ہر گز صادر نہ ہوتے۔ پھر یہ اعتراف کرنے کے بعد کہ یہ کفر عملی ہے نہ کہ اعتقادی، خود ہی یہ بھی کہا ہے: ’’شیطان نے اس کی نظر میں یہ بات اچھی کر دکھائی ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے نفع
Flag Counter