Maktaba Wahhabi

410 - 589
لہٰذا اللہ نے جس شفاعت کا رد کیا ہے وہ یہی شفاعتِ شریک ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس شفاعت کو ثابت کیا ہے، وہ شفاعت ایسی ہے جو اللہ کی طرف سے مامور شخص شفاعت کرے گا اور اجازت کے بغیر اپنے مالک کے سامنے نہ جا سکے گا۔ ان دونوں سفارشیوں میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا شریک اور بندۂ مامور کے درمیان فرق ہے۔ شفاعت سے بہرہ مند ہونے والے اہلِ توحید خالص: قیامت کے دن سب سے زیادہ اس شفاعت حقہ کا حق دار اور سعادت مند وہ شخص ہو گا جو اہلِ توحید خالص ہے اور مشرک نہیں ہے، لہٰذا سارا اختیار اکیلے اللہ کا ٹھہرا۔ اللہ کے نزدیک مخلوق میں سے سب سے اعلیٰ و اکرم اس کے رسول اور مقرب فرشتے ہیں اور یہ سب محض غلام و بندے ہیں ، کسی بات میں اس پر سبقت کرتے ہیں نہ کوئی کام اس کی اجازت کے بغیر بجا لاتے ہیں ۔ شفاعت کا غلط تصور: مشرکین نے اللہ کو چھوڑ کر مذکورہ لوگوں کو اپنا سفارشی مقرر کیا ہے اور اس سلسلے میں ان کا گمان یہ ہے کہ جب ہم ان کے ساتھ یہ معاملہ کریں گے تو یہ آگے بڑھ کر ہمارے سفارشی بن جائیں گے، چنانچہ یہ اہلِ شرک اپنے رب تعالیٰ کے حق سے نا واقف ہیں ، جو بات اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہے اور جو امر اس پر ممتنع ہے، اس کو بالکل نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کرنے کا دھوکا: اہلِ شرک نے اللہ تعالیٰ کو بادشاہوں اور بڑے لوگوں پر قیاس کیا ہے کہ کوئی شخص اپنا کام کروانے کے لیے ان بادشاہوں کے ہاں کسی خاص شخص کو اپنا سفارشی بناتا ہے، اس لیے کہ یہ خاص شخص اس بادشاہ کا شریک، معاون اور مددگار ہے اور اس بادشاہ کا کام اسی سے چلتا ہے، اگر اس طرح کے خاص لوگ نہ ہوں تو یہ بادشاہ بے بس ہو جائے، اس لیے بادشاہ خوشی وناخوشی کے ساتھ ان کی شفاعت وسفارش کو قبول کر لیتا ہے، مگر وہ جو اپنی ذات کے لحاظ سے غنی ہے، آسمان وزمین کی ساری مخلوق اس کے پرستار، غلام و بندے اور اس کے قہر سے مقہور ہیں ، وہ زبردست ہے اور یہ زیردست ہیں ، ان کے سارے افعال اس کے حکم اور اجازت کے پابند ہوں گے۔ مشرک جب ان
Flag Counter