دوسری فصل
شرک فی العبادۃ کی صورتیں
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مشرکین کا مخلوق میں سے اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اللہ کو بھی ماننا کسی کام کا نہیں ہے اور نہ ان کا یہ اقرار اللہ کے ہاں انھیں کوئی فائدہ ہی دے سکتا ہے۔ ان کا شرک فی العبادۃ یہ تھا کہ وہ غیر اللہ کو نفع اور نقصان کے مالک سمجھتے تھے اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ انھیں اللہ کے قریب کر دیتے ہیں ، نیز وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے۔ لہٰذا وہ ان کے لیے جانور ذبح کرتے، انھیں ان کے ارد گرد گھماتے، نذر و نیاز چڑھاتے، منتیں مانتے، ان کے سامنے ذلیل و خوار بن کر با ادب کھڑے ہوتے، انھیں سجدے کرتے اور اس سب کچھ کے باوجود اللہ کی ربوبیت کا بھی اقرار کرتے، اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق اور زمین وآسمان کا مدبر جانتے، لیکن عبادت میں شرک کے مرتکب ہوتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا اور ان کے اقرارِ ربوبیت کی کچھ حیثیت نہ سمجھی، اس لیے کہ ان کا فعل ان کے قول کے منافی تھا، لہٰذا توحیدِ ربوبیت ان کے کسی کام نہیں آ سکتی، جب تک اس توحیدِ ربوبیت کے ساتھ توحیدِ عبودیت نہ ہو اور جب توحیدِ عبودیت نہ ہو تو ان کا توحیدِ ربوبیت کا اقرار باطل ہے اور وہ پکے سچے مشرک ہیں ، جہنم کی آگ کے مختلف طبقات میں پڑے ہوئے ان کو یہ علم ہو جائے گا کہ یقینا وہ مشرک تھے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ تَاللّٰہِ اِِنْ کُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ * اِِذْ نُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾
[الشعرآئ: ۹۷-۹۸]
[اللہ کی قسم! بے شک ہم یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔ جب ہم تمھیں جہانوں کے رب کے برابر ٹھہراتے تھے]
حالانکہ انھوں نے اپنے معبودوں کو ہر لحاظ سے اللہ کے برابر ٹھہرایا تھا نہ وہ انھیں خالق اور
|