Maktaba Wahhabi

452 - 589
﴿ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ﴾ [البینۃ: ۵] [اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عباد ت کریں ، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے] جو شخص دن رات ظاہر اور مخفی طور پر خوف و طمع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارے، پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ غیر اللہ کو بھی پکارے تو وہ مشرک فی العبادۃ ہے، کیونکہ دعا و پکار عبادت ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس میں دعا کا نام عبادت رکھا ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ [الغافر: ۶۰] [بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں ، عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے] اللہ تعالیٰ کا مذکورہ فرمان اس حکم کے بعد ارشاد ہوا ہے: ﴿ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ [الغافر: ۶۰] [مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا] [1] کیا مشرکین سے جہاد کرنا واجب ہے؟ رہی یہ بات کہ جب یہ لوگ مشرک ہی ٹھہرے تو کیا اب ان سے جہاد کرنا واجب ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشرکوں سے جو برتاؤ کیا تھا، وہی برتاؤ ان کے ساتھ کرنا چاہیے یا نہیں ؟ ائمہ علم کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ ہاں ان لوگوں سے جہاد کرنا چاہیے۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ پہلے ان لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دی جائے اور اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ تم ان اولیا کے ساتھ نفع و ضرر کا جو اعتقاد رکھتے ہو، وہ اللہ کے ہاں تمھارے کسی کام نہیں آئے گا۔ بلکہ جیسے تم اللہ کے بندے ہو، ویسے ہی وہ اولیا، اللہ کے بندے ہیں ۔ ان کے حق میں تمھارا یہ اعتقاد بالکل شرک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانا اسی وقت صحیح اور مکمل ہوگا، جب تم شرک کو چھوڑ دو گے، اس سے سچی توبہ کرو گے اور اعتقاداً و عملاً صرف اللہ اکیلے کی عباد ت کرو گے۔
Flag Counter