Maktaba Wahhabi

468 - 589
خاموشی ان مقامات اور مصلوں پر جواز کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔ جو شخص ان معروف چیزوں سے واقفیت رکھتا ہے، وہ اس اصول کا قائل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کا سکوت انھوں نے ان گور پرستوں اور پیر پرستوں کے افعال و اعمال پر کیا ہوا ہے۔ فتنۂ قبور کی بدعت پر اجماع کالعدم ہے: اس صورت حال میں اگر کوئی کہے کہ امت نے ضلالت و گمراہی پر اجماع کیا ہے، کیونکہ وہ ایک بڑی جہالت پرانکار کرنے سے خاموش رہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اجماع تو حقیقت میں دورِ نبوت کے بعد مجتہدین امتِ اسلام کا کسی امر پر اتفاق کرنے کا نام ہے۔ فقہاے مذاہب اربعہ ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد کو محال قرار دیتے ہیں ۔ یہ قول اگرچہ باطل ہے اور ایسی بات وہی کہہ سکتا ہے جو حقائق سے جاہل اور علوم کتاب و سنت سے بے بہرا ہے۔ بہر حال ان فقہا کے زعم میں ائمہ اربعہ کے بعد ہر گز اجماع نہیں ہو سکتا، تو فتنہ قبور کی بدعت پر اجماع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں یہ بدعت اور فتنۂ قبور ائمہ مذاہب کے دور میں موجود نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجماع کا وقوع محال ہے، کیوں کہ سارا جہان امت محمدیہ سے بھر چکا ہے، اسلام ہر خطے اور ہر سر زمین میں پہنچ چکا ہے، اس ملت کے علما بے شمار ہیں اور کسی شخص کو ان کے احوال کی معرفت نہیں ہو سکتی، اس لیے اب دین کے پھیلاؤ اور مسلمان علما کی کثرت کے بعد جو کوئی اجماع کا دعویٰ کرے تو وہ جھوٹا ہے، جیسا کہ ائمہ تحقیق کا قول ہے۔ فتنۂ قبور پر اجماع کے دعوے کی حقیقت: اگر فرض کیا جائے کہ ان کو اس منکر کا علم ہوا، لیکن انھوں نے اس کا انکار نہ کیا، بلکہ خاموشی اختیار کی، تب بھی ان کی خاموشی اس منکر کے جواز پر دلیل نہیں بن سکتی، اس لیے کہ قواعدِ شریعت سے یہ بات معلوم ہے کہ انکار کے تین طریقے ہیں ۔ پہلا ہاتھ سے انکار کرنا۔ وہ اس طرح کہ اس منکر کو زائل اور ختم کر دے۔ دوسرا زبان سے انکار ہوتا ہے، جبکہ ہاتھ نہ چل سکے۔ تیسرا دل سے انکار ہوتا ہے، جبکہ زبان سے بھی انکار کی قدرت نہ ہو۔ اب ایک قسم کے انکار کی نفی سے دوسری طرح کے انکار کی نفی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عالم کا ایک ٹیکس وصول کرنے والے پر گزر ہوا جو مظلوموں سے
Flag Counter