Maktaba Wahhabi

469 - 589
بطور ٹیکس مال وصول کرتا ہے۔ اس عالم کو نہ ہاتھ سے اس منکر کے بدلنے کی طاقت ہوئی اور نہ زبان سے، اس لیے کہ اگر وہ انکار کرتا تو اہلِ معصیت اس پر ٹھٹھا کرتے۔ تو اس طرح انکار کی دو شرطیں باقی نہ رہیں ، صرف دل سے انکار کرنا، جو کمزور ایمان ہے، باقی رہ گیا۔ اب جو شخص اس عالم کو منکر کا مشاہرہ کرنے کے باوجود اس پر انکار کرنے سے ساکت اور خاموش دیکھے تو اس پر واجب ہے کہ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اس عالم کے لیے ہاتھ اور زبان سے اس منکر کا انکار مشکل ہے، لہٰذا اس نے سکوت اختیار کیا اور دل میں وہ ضرور اس منکر کا انکار کرتا ہے، کیونکہ مسلمان اہلِ دین کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے اور جہاں تک ممکن ہو تاویل کرنا لازم ہے۔ جو لوگ حرم شریف میں جاتے ہیں اور ان شیطانی عمارتوں [1] کو، جن کے سبب دین کی جمعیت میں تفرقہ پڑا اور مسلمانوں کی نماز پریشان و پراگندہ ہو گئی، مشاہدہ کرتے ہیں ، لیکن وہ اس کے انکار سے معذورہیں ۔ ہاں اندر سے منکر ہیں ۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جن کا گزر ٹیکس وصول کرنے والوں اور قبر پرستوں کے پاس سے ہوتا ہے۔ اجماع سکوتی: اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ائمہ استدلال نے بعض جگہ جو یہ کہا ہے: ’’وقع ولم ینکر فکان إجماعاً‘‘ [یہ واقع پیش آیا اور اس پر انکار نہ کیا گیا، لہٰذا اس مسئلے پر اجماع ہو گیا] ان کے اس کلام میں ایک خرابی ہے، کیونکہ یہ کہنا کہ کسی نے اس پر انکار نہیں کیا، عدم واقفیت پر مبنی اٹکل پچو ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں نے دل سے ان کا انکار کیا ہو گا، مگر ہاتھ اور زبان کے ساتھ انکار کرنے سے وہ معذور رہے۔ اسی زمانے میں دیکھو کہ بہت سے کام واقع ہوتے ہیں جن پر کوئی شخص ہاتھ اور زبان سے انکار نہیں کر سکتا ہے، حالانکہ اس کا دل منکر ہوتا ہے۔ جاہل جب یہ صورتِ حال دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ فلاں شخص نے سکوت کیا۔ تو اس کا یہ کہنا یا تو بطور ملامت ہوتا ہے یا سکوت کے اتباع کے طور پر۔ لہٰذا معرفت رکھنے والا شخص سکوت سے استدلال نہیں کرتا۔ ایسا استدلال وہی شخص کرتا ہے جو استدلال کی کیفیت سے نا واقف ہو۔ اسی طرح بعض لوگوں کا یہ کہنا:
Flag Counter