Maktaba Wahhabi

470 - 589
’’فعل فلان کذا، و سکت الباقون فکان إجماعاً‘‘ [فلاں شخص نے یہ کام کیا اور باقی لوگ خاموش رہے تو یہ اجماع ہو گا] دو و جہ سے خرابی کا شکار ہے: پہلی وجہ: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ فلاں کے فعل کی تقریر کے لیے باقیوں کے سکوت کا دعوی سکوت کی عدمِ دلالت کو واضح کرتا ہے۔ دوسری وجہ: یہ کہ ’’فکان إجماعاً‘‘ [یہ اجماع ہو گا] کا دعویٰ درست نہیں ، اس لیے کہ اجماع تو نام ہے امتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم امتِ اسلام کے اتفاق کا، اور خاموشی اختیار کرنے والے شخص کی طرف نہ اتفاق کی نسبت ہو سکتی ہے اور نہ خلاف کی، جب تک کہ وہ اپنی زبان سے کچھ نہ کہے۔ ایک حکایت: ایک بادشاہ کی مجلس میں حاضرینِ مجلس نے سلطنت کے ایک عامل کی بہت تعریف کی۔ ان میں سے ایک شخص خاموش تھا۔ بادشاہ نے پوچھا: ’’تو کیوں نہیں کچھ کہتا، جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں ؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اگر میں کچھ کہوں گا تو وہ ان کے خلاف ہو گا۔‘‘ معلوم ہوا کہ ہر سکوت رضا نہیں ہوتا۔ فتنۂ قبور پر خاموشی اختیار کرنے کا سبب: ان منکرات کی بنیاد رکھنے والے وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں تلوار اور نیزہ ہے اور لوگوں کے خون اور مال ان کی زبان و قلم کے نیچے ہیں ۔ تو پھر اس صورت حال میں بھلا کون شخص انھیں ان کے ارادے سے منع کر سکتا ہے؟ یہ بڑے بڑے قبے، گنبد اور مشہد، جو شرک و الحاد کا ایک بڑا سبب اور ذریعہ ہیں ، ان میں سے اکثر کو بنانے والے یہی شیطان صفت بادشاہ اور سلطان ہیں ۔ قبر پرستی کی ابتدا: ہوتا یوں ہے کہ کسی نے اپنے کسی رشتے دار کا مقبرہ بنا دیا، کسی نے اس کا مقبرہ بنا دیا جس کا وہ معتقد تھا، خواہ وہ پیر ہو یا عالم فاضل۔ پہلے پہل تو لوگ وہاں زیارت کرنے آتے تھے اور اپنے اس عمل کو زیارتِ اموات کا نام دیتے تھے، وہ ان مردوں کو وسیلہ ٹھہراتے تھے نہ ان کے نام کی دہائی دیتے تھے، بلکہ صرف ان کے لیے دعا و استغفار کر کے چل دیتے تھے۔ یہاں تک کہ جب وہ صدی
Flag Counter