Maktaba Wahhabi

489 - 589
حقیقت ہے۔ تاویل کرنے والوں کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو یہ قدرت حاصل نہ تھی کہ صفتِ الٰہی کا بیان ایسی عبارت سے کرتا جس میں تشبیہ و تجسیم کی خلل اندازی نہ ہوتی۔ اب وہ ایسی صلاحیت اور قدرتِ بیان لے کر آئے ہیں اور اپنے الفاظ میں صفات الٰہیہ کی تفصیل پیش کر رہے ہیں ۔ والعیاذ باللّٰه۔ تاویل سے تو یہ بھی لازم آتا ہے کہ اللہ عاجز ہے اور اس کی مخلوق قادر ہے۔ رب پاک نے اپنی صفات میں ایسے الفاظ استعمال کیے، جن کا ظاہر و باطن کفر و الحاد ہے اور یارانِ تاویل نے وہ الفاظ تراشے ہیں جن کا ظاہر و باطن سراپا تنزیہ ہے!! ظاہر ہے یہ کلمات اسی شخص کی زبان سے نکل سکتے ہیں ، جس کو حشر و نشر کا اقرار نہ ہو۔ کسی مومن کی زبان سے ایسی بات نہیں نکل سکتی۔ وجودِباری تعالیٰ: اصحاب الحدیث اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ اس جہانِ فانی کا بنانے والا ایک ہے، جس کو اللہ کہتے ہیں ، وہ سب سے اوّل ہے اور یہ عالم حادث ہے۔ فرمایا: ﴿ اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ﴾ [الأعراف: ۵۴] [ بے شک تمھارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھے دنوں میں پیدا کیا] نیز فرمایا: ﴿ اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ﴾ [الزمر: ۶۲] [اللہ ہر شے کا خالق ہے] اور فرمایا: ﴿ اَفِیْ اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ [إبراہیم: ۱۰] [ کیا آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے اللہ کے بارے میں شک ہے] قرآن مجید میں تقریباً پانچ سو آیتیں ایسی ہیں جو وجودِ باری تعالیٰ کی دلیل ہیں ۔ دہریوں کے سوا سارے جہان کے اہلِ علم ایک خالق کے قائل ہیں اور دنیا کو حادثِ نو جانتے ہیں ۔ جس کا یہ خیال ہو کہ عالم قدیم ہے، وہ کافر ہے۔ اثباتِ صانع کے لیے یاروں نے صدہا عقلی دلیلیں تراشی ہیں ، لیکن قرآنی دلائل کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ خالق کو قرآن و حدیث سے پہچاننے کے
Flag Counter