Maktaba Wahhabi

498 - 589
اہلِ حدیث سلف صالحین ایسا عقیدہ رکھنا کفر سمجھتے ہیں ۔ امام ترمذی نے لکھا ہے کہ ان صفات کو ماننا تشبیہ نہیں ہے، تشبیہ یہ ہے کہ کہا جائے: اس کا سننا اور دیکھنا مخلوق کے سننے اور دیکھنے کی طرح ہے۔ یہی حکم تمام صفات کا ہے کہ کسی ایک صفت میں بھی تشبیہ جائز نہیں ۔[1] وہ یکتا ہے: اللہ کی کوئی ضد نہیں ہے، جو اس سے کسی بات میں جھگڑے۔ فرمایا: ﴿ لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ [الأنبیائ: ۲۲] [اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو دونوں زمین و آسمان تباہ ہوجاتے] اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے: ﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ [البقرہ: ۲۲] [اللہ کے بہت سے ہمسر نہ بناؤ] ایک صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا: ’’جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( اَجَعَلْتَنِيْ لِلّٰہِ نِدًّا؟ )) [کیا تو نے مجھے اللہ کا ہمسر ٹھہرا دیا ہے؟][2] مطلب یہ ہے کہ کوئی اللہ کا مدِ مقابل ہے نہ اس کے برابر ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اثباتِ صفات میں ایسا مبالغہ جو تجسیم تک پہنچا دے اور نفیِ صفات میں ایسا غلو جس سے تعطیل لازم آئے، افراط و تفریط ہے۔ سلف کا طریقہ فقط یہ تھا کہ جو کچھ اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، وہ اسے ثابت مانتے اور اپنی ذات سے جس کی نفی کی ہے اس کو منفی سمجھتے۔ ان کا قاعدہ کلیہ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ تھا۔[3] وجودِ باری تعالیٰ: وجوبِ وجود، استحقاقِ عبادت اور خلق و تدبیر میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے۔ وجودِ باری تعالیٰ کی دلیل رب پاک کا یہ فرمان ہے: ﴿ لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا﴾ [الأنبیائ: ۲۲] [اگر زمین وآسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبود ہوتے تو وہ تباہ ہو جاتے]
Flag Counter