Maktaba Wahhabi

504 - 589
قلب سلیم نہیں رکھتا یا شکم وستر کو گناہ سے نہیں بچاتا ہے، وہ راسخین فی العلم میں داخل نہیں ہے، چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا ہو۔ فلاسفہ اور معتزلہ کا خیال ہے کہ مسئلہ صفاتِ باری تعالیٰ سے بڑا مشکل اور ناقابل فہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے انھوں نے سرے سے صفات کا انکار کر دیا۔ کرامیہ کہتے ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ ازلی نہیں ہیں ، یہ زائل ہو جائیں گی۔ اشاعرہ کہتے ہیں کہ صفات الٰہیہ عین ذات ہیں نہ کہ غیر ذات۔ قرآن و حدیث میں ایسی کسی بحث کا قطعاً ذکر نہیں ۔ یہ سب بے کار کی بحثیں ہیں ، جو خواہ مخواہ عقیدے کی عملی قوت کو تباہ کرتی ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صفات ذات الٰہی سے زائد امور ہیں ، ان کا بھی یہ تصور لایعنی عجمی تصور ہے جو کتاب و سنت کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے بڑا درست فرمایا ہے کہ ان تمام مباحث میں حق بات یہ ہے کہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مباحث میں کچھ نہیں فرمایا ہے، بلکہ ایسے تعمق اور بحث سے روکا اور ڈانٹا ہے، اس لیے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ جس بات سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے، اسے چھیڑے۔ جہمیہ کا یہ کہنا کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، جس کی دلیل آیاتِ معیت، قرب اور نجویٰ وغیرہ ہیں اور یہ آیتیں استوا کی محکم آیتوں کے خلاف نظر آتی ہیں ۔ اس کے جواب میں اگر ہم دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم نبوت صلی اللہ علیہ و سلم تک جتنے نبی اور رسول آئے، سب نے یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ اس جہاں سے الگ تھلگ اپنی مخلوق سے جدا عرش پر رونق افروز ہے۔ ہمیں معیت اور تباین کی آیتوں کے درمیان اختلاف سے کیا غرض؟ آخر جس ذات برتر وبا لانے یہ فرمایا کہ وہ احسان و صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، اسی نے تو یہ فرمایا ہے کہ وہ بالاے عرش ہے۔ اب ہمیں یہ کیسے حق پہنچتا ہے کہ ہم کہیں : معیت اور علومیں تضاد ہے؟ ہمیں اپنے فہم و نظر کو قصور وار ٹھہرانا چاہیے کہ اس ذات عظیم سے متعلق فیصلہ کرنے بیٹھیں اور معیت اور استوا والی آیتوں میں تعارض دکھلائیں ۔ اربابِ دانش و بینش کے نزدیک ہر آیت کا اپنا موقع و محل ہے۔ صفتِ نزول الٰہی: اصحابِ حدیث نے جس طرح استوا کو ثابت مانا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفتِ نزول کو بھی تسلیم کیا ہے۔ یعنی وہ ہر رات آسمانِ دنیا پر نزولِ اجلال فرماتا ہے۔ یہ نزول مخلوق کے نزول کے مشابہ
Flag Counter