Maktaba Wahhabi

506 - 589
صرف نزولِ رب کی خبر دی ہے، کیفیتِ نزول کی خبر نہیں دی۔‘‘[1] ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرفہ کے روز فرمایا: ’’آج وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول کرے گا۔‘‘[2] اسی طرح نصف شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر نزولِ رب کا ذکر آتا ہے۔[3] پھر امام صابونی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’جب احادیثِ نزول ثابت ہو گئیں تو اہلِ سنت اصحابِ حدیث نے تشبیہ کے بغیر ان حدیثوں کو قبول کیا ہے۔ ان کا اعتقاد یہ ہے کہ اللہ کی کوئی صفت بھی مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہے۔ صفت کا مسئلہ ذات سے متعلق ہے، جس طرح ذاتِ رب یکتا اور بے مثال ہے، یہی حال اس کی صفت کا ہے۔ رب پاک خواہ عرش سے آسمانِ دنیا پر آئے، بہر حال وہ اللہ ہی ہے اور بندہ اگرچہ فرش سے بالاے آسمان چلا جائے، بہر حال وہ بندہ رہے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی تو ان کی عبدیت مزید کامل ہو گئی۔‘‘ [4] کلامِ الٰہی: اصحابِ حدیث کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کا کلام، کتاب، وحی مستطاب اور تنزیل جلیل ہے، مخلوق نہیں ہے۔ جو اس کلام کو مخلوق کہتا ہے، وہ کافر ہے۔ مخلوق ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب کا معنی اللہ کی طرف سے ہے اور لفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ یہ عقیدہ معتزلہ کا تھا۔ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ وہی کلام ہے جس کو جبریل علیہ السلام اللہ کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے۔ یہ کلامِ قرآن عربی زبان میں ہے، جو لا علموں کی تعلیم کے لیے آیا ہے۔ یہ جاہلوں کو ڈراتااور خوشخبری سناتا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ * نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ * عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ * بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ﴾ [الشعرآئ: ۱۹۲۔۱۹۵]
Flag Counter