Maktaba Wahhabi

518 - 589
(( فَلَا یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللّٰہِ شَيْئٌ )) [1] [اللہ کے نام کے برابر کوئی چیز وزنی نہیں ہو سکتی] اس طرح کی اور بہت سی حدیثیں آئی ہیں ۔ اسماے الٰہیہ کے ثبوت پر علماے قرآن و حدیث کا اجماع ہے اور اثباتِ اسما پر ان کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ جب اسماے الٰہیہ کا ثبوت تینوں ذرائع سے ہو چکا تو جو کوئی غیر اللہ کو پکارتا ہے، وہ مشرک ہے۔ کوئی فرشتوں اور شیطانوں کا نام جپتا ہے، کوئی اولیاء اللہ کا وظیفہ خواں ہے، کوئی یا رسول اللہ کا نعرہ لگا رہا ہے۔ کسی کو اصحابِ بدر کے ناموں کے ورد میں تقوے کا تصور ہے، کچھ لوگ تمام انبیا کے ناموں کی تسبیح پھیرتے ہیں ، حالانکہ یہ تمام اعمال خلافِ شرع ہیں ، اللہ کے سوا کسی کو پکارنا چاہیے نہ کسی کا نام جپنا چاہیے۔ اللہ کے نام توقیفی ہیں : مشہور یہ ہے کہ اللہ کے نام توقیفی ہیں ، یہی بات ٹھیک ہے، مگر بعض علما کا خیال ہے کہ یہ توقیف نہ اسما میں ہے نہ صفات میں ۔ معتزلہ اور کرامیہ کا کہنا ہے کہ جب کسی لفظ کا معنی اللہ کے حق میں ثابت ہو، پھر عقل بھی اس کو تسلیم کرے تو اسے اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔ امام طیبی نے کہا ہے کہ عجم نے اللہ کے ایسے نام رکھے ہیں جو شرع شریف میں نہیں آئے ہیں ، لیکن ان ناموں کی صحت پر اتفاق ہے، جیسے لفظ ایزد یا یزدان، یا خدا فارسی میں یا گاڈ انگریزی میں ، یا نرنکار ہندی میں ، مگر غزالی وغیرہ محققین کا مختار مذہب یہ ہے کہ جب یہ سارے نام توقیفی ٹھہرے تو انھیں پر توقف کرنا چاہیے۔ دوسروں کے تراشیدہ ناموں سے احتراز کرنا چاہیے۔ غزالی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا جو نام آپ کے والدین نے نہیں رکھا ہے نہ خود آپ نے مقرر فرمایا ہے۔ ہم کو وہ نام رکھنا بھی درست نہیں ہے، یہی حال بڑوں کے نام کا ہے۔ جب یہ بات مخلوق کے حق میں درست نہیں ہے تو اللہ کے حق میں با لاولیٰ ممتنع ہے، بلکہ اس پر اتفاق ہے کہ جس نام یا صفت سے نقص کا وہم ہو، گو نص میں وارد ہو، اس کو بھی نہ بولنا چاہیے، جیسے ماہد، زارع، خالق، حالانکہ ﴿فَنِعْمَ الْمَاھِدُوْنَ﴾ [ہم بہترین بچھانے والے ہیں ] ﴿اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ﴾ [یا ہم اگانے والے ہیں ] ﴿فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی﴾ [الأنعام: ۹۵] [دانا اور بیج کا
Flag Counter