Maktaba Wahhabi

53 - 589
باپ کی وفات کے وقت احمد حسن سات برس کے اور صدیق حسن پانچ برس کے تھے۔ نواب محمد صدیق حسن کے ننہیال کا تعلق بانس بریلی سے تھا۔ ان کے نانا مفتی محمد عوض عثمانی اپنے علاقے اور عہد کے ممتاز عالم تھے۔ دنیوی اعتبار سے بھی اونچی حیثیت کے مالک تھے۔ نواب صاحب کی ولادت انہی کے گھر بانس بریلی میں ۱۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۲۴۸ھ (۱۴؍ اکتوبر ۱۸۳۲ء) کو ہوئی۔ سید اولاد حسن کی وفات کے بعد یہ کم سن بچے انتہائی غربت کی زد میں آگئے تھے۔ گھر میں اپنے اسلاف کی صرف کتابیں رہ گئی تھیں ، جنھیں وہ دیکھتے رہتے تھے اور وہ کتابیں ان کے دل میں تحصیل علم کا جذبہ پیدا کرتی تھیں ۔ طلبِ علم کی راہ پر: نواب محمد صدیق حسن کچھ بڑے ہوئے تو اپنے محلے کے مدرسے میں حصولِ علم کا آغاز کیا۔ بڑے بھائی سید احمد حسن عرشی سے بھی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ان کے والد (سید اولاد حسن) کے ایک عقیدت مند سید احمد علی رحمہ اللہ انھیں اپنے وطن فرخ آباد لے گئے۔ وہاں کے بعض اساتذہ سے مختلف علوم کی کتابیں پڑھیں ۔ بعد ازاں سید احمد شہید رحمہ اللہ کے ایک ارادت کیش ان کو کان پور لے گئے، وہاں کے چند اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ۱۶۲۹ھ (۱۸۵۳ء) میں سید محمد صدیق حسن عازم دہلی ہوئے، جسے اس زمانے میں علم کے گہوارے اور علما کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ وہاں مفتی صدر الدین آزردہ کی خدمت میں حاضری دی اور ایک سال آٹھ مہینے ان سے تحصیلِ علم میں مصروف رہے۔ اس اثنا میں ان سے تفسیر و حدیث کی بعض کتابوں کے علاوہ منطق و فلسفہ، صرف و نحو، معانی و بیان، فقہ و کلام اور عربی ادبیات کی متعدد کتابوں کی تکمیل کی اور سند لی۔ مفتی صدر الدین آزردہ رحمہ اللہ کے علاوہ جن حضراتِ عالی مقام سے علومِ تفسیر و حدیث کا اجازہ حاصل ہوا، ان میں سے بعض رفیع الدرجات علما کے اسماے گرامی حسبِ ذیل ہیں : 1۔شیخ زین العابدین بن محسن بن محمد انصاری رحمہ اللہ ۔ 2۔قاضی محمد بن علی شوکانی یمنی کے شاگردِ رشید شیخ عبد الحق محدث نیوتنی بنارسی رحمہ اللہ ۔ 3۔شیخ حسین عرب یمنی رحمہ اللہ ۔
Flag Counter