Maktaba Wahhabi

530 - 589
اجماعِ صحابہ، ائمہ اسلام اور اہلِ حدیث کا اس پر اتفاق ہے۔ یہ رویت جہتِ فوق و علو میں ہو گی نہ کہ جہتِ اسفل، خلف، یمین، شمال اور رو در رو میں ۔ حدیث میں آیا ہے: (( فَإِذَا الرَّبُّ قَدْ أَشْرَفَ عَلَیْھِمْ مِنْ فَوْقِھِمْ )) [1] [ اچانک ان کے اوپر سے اللہ ان کو جھانکے گا] ملا علی قاری نے کہا ہے کہ رویت کی یہ احادیث معنوی طور پر تواتر سے ثابت ہیں ۔ ان کا قبول کرنا واجب ہے۔ اہلِ بدعت کی ملمع سازی لائقِ التفات نہیں ۔ صنفِ نازک کی رویتِ باری تعالیٰ: عورتوں کے رویتِ باری میں اختلاف ہے۔ حق یہ ہے کہ یہ بھی گاہ بہ گاہ اللہ کو دیکھیں گی، جس طرح دنیا میں روزِ عید دربار عام ہوتا ہے۔ عورتیں گو خاص مومنوں کی طرح اللہ کو ہر صبح و شام نہ دیکھیں ، عام مسلمانوں کی طرح جمعہ کے روز دیکھیں گی، جیسا کہ امام سیوطی نے کہا ہے، لیکن صحیح تو یہ ہے کہ اس بات پر کوئی واضح دلیل موجود نہیں جس سے پتا چلے کہ عورتیں اللہ تعالیٰ کو مردوں کے وقتِ رویت کے سوا دوسرے اوقات میں دیکھیں گی۔ رویت کی دلیلوں کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس رویت میں سب یکساں ہوں گے، گو درجات میں متفاوت ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ مرد بہشت میں زیادہ ہوں گے، عورتیں کم ہوں گی، مگر عورتیں جنت میں جائیں گی تو ان کے رفعتِ مقام میں کوئی چیز مانع نہ ہو گی۔ مغفرت بھی ہو اور دخولِ بہشت بھی ہو، اب محرومیِ دیدار کیوں ؟ فاطمہ، خدیجہ، عائشہ، آسیہ، مریم رضی اللہ عنہن تو ہزاروں لاکھوں ، کروڑوں مردوں سے بہتر ہیں ۔ انھیں دیدار گاہ بہ گاہ نصیب ہو، خاص بندوں کی طرح صبح و شام نہ ہو، یہ انوکھی بات معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰه أعلم۔ ٭٭٭
Flag Counter