Maktaba Wahhabi

543 - 589
بدعت حسنہ سے بہتر ہے، مثلاً سنت کے مطابق استنجا کرنا، مدرسہ اور خانقاہ بنانے سے بہتر ہے، اس لیے کہ سنت سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور بدعت سے ظلمت پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ نوبت ’’ختم‘‘، ’’طبع‘‘ اور ’’رین‘‘ کو پہنچ جاتی ہے۔ یہ دونوں عالم بڑے فاضل، عابد، زاہد، عامل اور حنفی مذہب کے امام تھے۔ امید ہے کہ حنفیہ ان کے فتوے کا انکار نہ کریں گے۔ اگر کریں تو کیسے کر سکتے ہیں ؟ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی فرمایا ہے: (( وَ مَنْ عَصَانِيْ فَقَدْ أَبیٰ )) [1] [جس نے میری نافرمانی کی اس نے (جنت میں جانے سے) انکار کر دیا] پھر فرمایا کہ ایسا شخص جہنم میں جائے گا: (( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِيْ النَّارِ )) [2] [ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں (لے جانے کا سبب) ہے] یہ ایک کلیہ قاعدہ ہے جو ہر بدعت کو شامل ہے، خواہ اس کو کوئی حسنہ کہے یا مستحبہ یا واجبہ۔ افسوس تو یہ ہے کہ کسی بھی بدعت کو حدیث میں حسنہ نہیں کہا گیا۔ پھر اس تقسیم کو نہ ماننے والوں پر نکیر کیوں کیا جائے؟ ولایت: ولایت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ ولی معصوم ہو اور اس سے خطا اور غلطی نہ ہو۔ ولی بعض علومِ شریعت سے بے خبر رہ سکتا ہے اور اس پر بعض امور دین مشتبہ ہو سکتے ہیں ۔ وہ کبھی خوارقِ عادت کو کرامات سمجھ لیتا ہے اور شیطان کے دھوکے میں آجاتا ہے۔ اسے خبر نہیں رہتی کہ یہ کام شیطان کا ہے۔ اس خطا کے سبب وہ ولایت سے خارج نہیں ہوتا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے خطا و نسیان کو معاف فرمایا ہے۔ ولی کی بات ماننا کسی کے لیے ضروری ہے نہ اس کے ہر الہام، واقعہ اور کشف پر اعتماد کرنا لازم ہے۔ ہر ولی کے ہر قول وفعل کو کتاب و سنت پر پرکھنا چاہیے، اگر وہ صحیح نکلے تو ماننا چاہیے اور اگر کتاب و سنت کے مطابق نہ ہو، بلکہ ان کے مخالف ہو تو مفت میں ان کی پیروی کر کے معصیت میں پڑنا جائز نہیں ۔
Flag Counter