Maktaba Wahhabi

55 - 589
ریاستِ بھوپال کی تاریخ نگاری کا فریضہ ان کے سپرد کیا گیا۔ اب روز بہ روز ترقی کے دروازے ان کے لیے کھلنے لگے اور عروج نے دل کھول کر ان کا استقبال کیا۔ ۲۵؍ شعبان ۱۲۷۷ھ (۱۸؍ مارچ ۱۸۶۱ء) کو ریاست کے مدار المہام مولانا جمال الدین صدیقی دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی بڑی بیٹی ان کے عقد میں دے دی۔ نکاح مولانا عبد القیوم بن مولانا عبد الحی بڈھانوی رحمہما اللہ نے پڑھایا۔ نواب صاحب نے اب اپنی والدہ مکرمہ اور بہنوں کو بھی قنوج سے بھوپال بلا لیا تھا اور اس خاندان نے مستقل طور پر بھوپال میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ نواب شاہ جہاں سے شادی: والیہ بھوپال نواب سکندر بیگم کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی نواب شاہ جہاں بیگم نے ریاست کی زمامِ حکومت ہاتھ میں لی۔ ان کا شوہر وفات پا گیا تھا۔ نواب شاہ جہاں بیگم صاحبہ نواب محمد صدیق حسن کی قابلیت، دیانت اور شرافت سے نہایت متاثر ہوئیں ۔ اس تاثر کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے نواب صاحب کو امورِ سلطنت میں شریک کرنے کا فیصلہ کیا اور ۱۲۸۸ھ (۱۸۷۱ء) میں نواب صاحب سے نکاح کر لیا۔ پھر ۲۱؍ ربیع الثانی ۱۲۸۸ھ (۱۰؍ جولائی ۱۸۷۲ء) کو انھیں ’’معتمد المہام‘‘ کا عہدہ ملا اور ۱۰؍ شعبان ۱۲۸۸ھ (۱۳؍ اکتوبر ۱۸۷۲ء) کو ’’نواب والا جاہ امیر الملک سید محمد صدیق حسن خاں ‘‘ کے خطاب سے مفتخر ہوئے۔ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے اعزازات کے مستحق قرار پائے۔ علم اور اہلِ علم کی قدر دانی: اب نواب صاحب رحمہ اللہ نے ریاست کے طول و عرض میں مدرسے قائم کیے، یتیم خانے بنوائے، مسجدیں تعمیر کرائیں ، لائبریریوں کے قیام کا سلسلہ شروع کیا، سرکاری طور پر ریاست کے مختلف مقامات میں جاروب کشوں کا تقرر کیا گیا، مسجدوں میں باقاعدہ موذن، امام اور خطیب مقرر کیے گئے اور سرکاری خزانے سے ان کو ماہانہ تنخواہیں ملنے لگیں ۔ دیگر علومِ متداولہ کے علاوہ طلبا کے لیے خوش خطی، انشا پردازی، قانون دانی اور حساب و ریاضی کی تعلیم لازمی قرار دی گئی۔ علما و طلبا کے لیے تصنیف و تالیف اور مختلف علمی موضوعات پر تحقیق کے شعبے قائم کیے گئے۔ مدرسین کے لیے ان کی ضرورت اور قابلیت کے مطابق معقول مشاہرات کا اہتمام کیا گیا، طلبا کو ماہانہ وظائف دینے کا فیصلہ ہوا۔ ہندی زبان کی تعلیم کا انتظام بھی کیا گیا۔ باشندگانِ ریاست کے لیے اخلاقی تربیت کا بالخصوص بندوبست کیا
Flag Counter