Maktaba Wahhabi

560 - 589
فاسق و فاجر کی بات ہی کیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے اگر کوئی اس ضغطہ سے بچتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بچتے،[1] جن کے انتقال پر عرش ہل گیا، پھر دوسروں کا کیا حال ہو گا؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ضغطہ کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی زمین مردے کو دبوچتی ہے اور میت پر تنگ ہو جاتی ہے۔ پھر اللہ اس جگہ کو مردے پر کشادہ کر دیتا ہے اور یہ کشادگی مومن کے حدِ نظر تک ہو جاتی ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ یہ مومن کے لیے ایسا ہوتا ہے، جیسے بچہ کسی دور دراز سفر سے آئے تو اس کی ماں شفقت سے اسے گلے لگا لے۔ قبر سے دوبارہ زندہ ہونا: مرنے کے بعد دوبارہ قبر سے زندہ ہو کر اٹھنا حق ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ ثُمَّ اِِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ﴾ [المؤمنون: ۱۶] [پھر بلا شبہہ تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے] حشرِاجساد کے سلسلے میں کثرت سے آیات و احادیث وارد ہیں ۔ مسلمان کے اعتقاد کا دارومدار اسی ایمانی مسئلے پر ہے۔ آدمی کے اندر ایک ہڈی ہے جس کو ’’عجب الذنب‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ ہڈی باقی رہتی ہے جو ذرہ برابر ہوتی ہے، اسی سے پھر انسان کو تن بدن کے ساتھ اٹھا کر کھڑا کر دیا جائے گا۔[2] آسمان سے بارش ہو گی، پھر سارے انسان، حیوان، چرند پرند، کیڑے مکوڑے جمع ہو جائیں گے۔ ہر ایک کو اس کا بدلہ ملے گا۔ بچے کا بچے سے، جانور کا جانور سے، پھر حیوان ما کول خاکِ بہشت بن جائیں گے، دوسرا نفخہ اٹھانے کے لیے ہو گا، اس سے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ فرمایا: ﴿ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾ [الزمر: ۶۸] [پھر صور میں دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا، پھر لوگ اٹھ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے] اہلِ حدیث کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ مقربین، حوروقصور، جہنم پر مقرر فرشتے، حاملینِ عرش، جنت و دوزخ اور کرسی فنا نہیں ہوں گے۔ مرنے سے لے کر دخولِ جنت تک کے زمانے کا نام قیامت ہے، لیکن اگر عبرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہر روز یہی قیامت انسان پر گزرتی ہے، مگر اسے قیامت کے دن کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ کانوں میں تیل ڈالے ہوئے بیٹھے ہیں ، ان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
Flag Counter