Maktaba Wahhabi

569 - 589
ہیں ۔ اہلِ کلام کی تفصیل طلبی فساد اور بگاڑ کا پیش خیمہ ہے۔ سمر قندی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایمان مخلوق ہے۔ اہل بخارا کہتے ہیں : مخلوق نہیں ہے۔ یہی قول محدثین کی ایک جماعت کا ہے۔ اشاعرہ کا میلان بھی اسی طرف ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ صحابہ و تابعین نے اس میں کچھ کلام نہیں کیا تو ہمیں بھی اس پر سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ ایمان نیند، غفلت، بے ہوشی اور موت کے ساتھ بھی باقی رہتا ہے، باوجودیکہ ان میں ہر ایک تصدیق کی ضد ہے، مگر چونکہ شارع نے ان حالات میں بقاے ایمان کا حکم لگایا ہے تو کس کو مجال ہے کہ ان حالات کے ایمان کا انکار کرے؟ اس سلسلے میں معتزلہ کا انکار بھی لائق اعتبار نہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام اور ایمان ایک ہی چیز ہے۔ یہی قول حنفیہ کا ہے۔ شافعیہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ اگر یہ رائے درست تسلیم کر لی جائے تو اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ ایمان عمل میں داخل ہے، کیونکہ حدیثِ جبریل میں ، جو متفق علیہ ہے، ایمان کا اطلاق تصدیق پر، اسلام کا اطلاق اعمال پر، احسان کا اطلاق اخلاص اور حضورِ قلب پر ہوا ہے۔ نتیجے سے قطع نظر بہ ظاہر ایمان اور اسلام کے درمیان فرق مذکور ثابت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مومن ہے مگر مسلم نہیں یا مسلم ہے مگر مومن نہیں ، کیونکہ ایمان اسلام کے بغیر اور اسلام ایمان کے بغیر پایا نہیں جا سکتا۔ جس نے دونوں کو ایک کہا، اس کا یہی مطلب ہے۔ دین کا لفظ ایمان، اسلام، سارے شرائع اور احکام پر بولا جاتاہے۔ جب کسی مومن سے اقرار کے ساتھ تصدیق پائی گئی تو اب وہ یہ بات کہہ سکتا ہے کہ میں سچ مچ مومن ہوں ، لیکن اکثر سلف کہا کرتے تھے: ان شاء اللہ ہم مومن ہیں ۔ ان کا اس طرح کہنا اللہ کے نام سے تبرک کے طور پر تھا، شک کی بنیاد پر نہیں تھا۔ اس صورت میں دونوں باتیں ایک ہوئیں ۔ نسفی کا یہ لکھنا کہ ان شاء اللہ نہیں کہنا چاہیے، درست نہیں ہے۔ اس جملہ مبارکہ کو تو ہر بات کے ساتھ کہنا چاہیے۔ ایمانِ باس: ایمان باس مقبول نہیں ہے۔ باس سے مراد سکراتِ موت اور احوالِ آخرت کے وقوع کا وقت ہے۔ مرتے وقت مومن بہشت کو اور کافر دوزخ کو دیکھنے لگتا ہے۔ ایسے وقت میں کافر کا ایمان لانا کچھ مفید نہ ہو گا، کیونکہ اللہ کو مطلوب ایمان بالغیب ہے۔ سارے متقدمین و متا خرین اہلِ حق کا اس ایمان
Flag Counter