Maktaba Wahhabi

570 - 589
کے مقبول نہ ہونے پر اتفاق ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ غر غرہ کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی ہے۔[1] قرآن مجید میں ہے: ﴿ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُھُمْ اِِیْمَانُھُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا﴾ [المؤمن: ۸۵] [جب انھوں نے ہمارے باس کو دیکھا تو ان کا ایمان ان کو نفع نہ دے گا] ﴿ وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ حَتّٰی ۔ٓ اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ﴾ [النسائ: ۱۸] [وہ لوگ جو برائیاں کرتے ہیں پھر جب ان کی موت قریب ہوتی ہے تو کہتے ہیں اب میں توبہ کرتا ہوں ، ایسوں کی توبہ کا اعتبار نہیں ] معلوم ہوا کہ جو عمر بھر گناہ کبیرہ کرتے ہیں ، جب ان کو موت آنے لگتی ہے اور زندگی سے ناامیدی ہو جاتی ہے تو توبہ کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ ایسوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ انسان کی متغیر ایمانی حالت: سعادت یاب شقی اور شقی سعادت یاب ہو جاتے ہیں ، وہ اس طرح کہ ایمان کے بعد ارتداد اور عمل صالح کے بعد کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں یا کفر کے بعد ایمان نصیب ہو، کبائر کے بعد توبہ حاصل ہو اور عمل صالح کی توفیق نصیب ہو۔ یہ تغیر سعادت اور شقاوت پر ہوتا ہے، اسعاد اور اشقا پر نہیں ۔ اِسعاد اور اِشقا اللہ کی صفتیں ہیں ۔ اسعاد تکوینِ سعادت اور اشقا تکوینِ شقاوت کا نام ہے۔ تغیر اللہ کی صفت میں رونما نہیں ہوتا، تغیر انسانی صفات میں رونما ہوتا ہے۔ کبیرہ گناہ سے ایمان زائل نہیں ہوتا: کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے ایمان زائل نہیں ہوتا، ناقص ضرور ہو جاتا ہے، کیونکہ ارتکابِ کبیرہ کے باوجود تصدیق باقی رہتی ہے۔ اس طرح مرتکب کبیرہ کافر نہیں ہوتا۔ معتزلہ کا ایسے شخص کو ایمان سے بالکل خارج کر دینا یا خوارج کا ایسے شخص کو داخلِ کفر کہہ دینا، قرآن و حدیث کے خلاف ہے، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے ایسے گناہ ہوں اور اسے ان پر اصرار ہو تو اس کا انجام بہتر نہ ہو اور اس کے اصرار اور تکرار کے سبب اس کی بخشش نہ ہو۔ رہی توبہ تو یہ سارے گناہوں کو ختم کر دیتی ہے۔ وہ
Flag Counter