Maktaba Wahhabi

571 - 589
گناہ گاروں کو بے گناہ اور پاک بنا دیتی ہے۔ وہ لوگ جن کو توبہ نصیب نہ ہو، بڑے بد بخت ہیں ۔ ان سے زیادہ کم بخت اور بد نصیب وہ لوگ ہیں جو توبہ کر کے مدتوں اچھے اور صالح رہتے ہیں اور یک بارگی توبہ توڑ کر اپنے پہلے برے کردار پر آ جاتے ہیں ۔ گناہ گار مومن: اہلِ سنت کا یہ قول ہے کہ مومن سے چھوٹے بڑے کتنے ہی گناہ کیوں نہ سر زد ہوں ، وہ کافر نہیں ہوتا، گو دنیا سے وہ بے توبہ ہی کیوں نہ گیا ہو۔ اگر اس کی وفات توحید اور اخلاص پر ہوئی تو اللہ کو اختیار ہے وہ اسے معاف کر سکتا ہے اور قیامت کے دن صحیح سالم بہشت میں داخل کر سکتا ہے اور اس کے گناہ پر مواخذہ کر کے جہنم میں بھی ڈال سکتا ہے، البتہ اسے خلودفی النار سے نجات ملی رہے گی۔ ایک دن جہنم سے نکل کر بہشت میں جائے گا۔ سہل بن محمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ گناہ گار مومن جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو گا، لیکن وہ کافروں کی طرح آگ میں ڈالا جائے گا نہ ان کی طرح اس میں رہے گا نہ ان کی طرح شقی ہو گا، کیونکہ قرآن میں آیا ہے کہ اللہ شرک کو نہیں بخشتا، باقی سارے گناہوں کو بخشتا ہے۔ وہ صغیرہ پر سزا دے سکتا ہے اور کبیرہ سے درگزر کر سکتا ہے، بشرطیکہ گناہ گار کبیرہ کے استحلال کا قائل نہ ہو، کیونکہ کسی گناہ کو حلال کر لینا کفر ہے۔ مرتکبِ صغائر کو اطمینان اور مرتکبِ کبائر کو نا امیدی زیبا نہیں ہے۔ کسی کو خبر نہیں کہ اس کے صغائر بخش دیے گئے ہیں ، کبائر کی تو بات ہی جدا ہے۔ خاص طور پر وہ کبائر جن سے توبہ نصیب نہیں ہوئی یا توبہ کے بعد پھر ان کا ارتکاب ہونے لگے۔ ایسے لوگ کافر قرار نہیں دیے جا سکتے، لیکن ان کے سوے خاتمہ کا ڈر ضرور ہے۔ تارکِ صلات کا حکم: عمداً فرض نماز کے تارک کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کافر ہے یا نہیں ؟ امام احمد اور علماے سلف اس کو کافر کہتے ہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث صحیح میں کافر اور مسلم کے درمیان فرق نماز ہی کو بتلایا گیا ہے، اس لیے جس نے نماز ترک کی وہ کافر ہوا۔ ترکِ نماز یوں ہو کہ بالکل نماز پڑھی ہی نہ جائے یا ایک دو وقت کی پڑھی جائے اور باقی کو چھوڑ دیا جائے یا نماز کا وقت گزار کر دو چار ٹکریں لگالی جائیں یا دیدہ ودانستہ نماز کا وقت گزر جانے دیا جائے۔ امام شافعی اور علماے سلف رحمہم اللہ کی ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ جب تک ایک مسلمان نماز کی فرضیت کا اعتقاد رکھتاہے، اس وقت
Flag Counter