Maktaba Wahhabi

580 - 589
میں امتیاز کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ فرائض اسلامیہ کا منکر یا تارکِ عمد کافر ہوتا ہے، اور سنن ثابتہ کا مخالف بدعتی کہلاتا ہے۔ کبائر کا مرتکب فاسق ہوتا ہے، فاسق کا رشتہ کفر سے نزدیک اور ایمان سے دور ہوتا ہے۔ رحمتِ الٰہی سے نا امیدی: اللہ تعالیٰ سے مایوس ہونا کفر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [یوسف: ۸۷] [اللہ کی رحمت سے صرف کافر قوم ما یوس ہوتی ہے] اللہ تعالیٰ سے بے فکر رہنا بھی کفر ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ [الأعراف: ۹۹] [صرف خسارہ یاب قوم ہی ربانی تدبیر سے بے فکر رہتی ہے] بالکل ناامید ہونا بہتر ہے نہ بالکل بے خوف ہو جانا اچھا ہے۔ بعض لوگ کثرتِ گناہ سے ناامید ہو جاتے ہیں کہ اتنے گناہ ہو گئے ہیں ، معافی نہیں ہو سکتی، حالانکہ اگر مشرق ومغرب گناہ سے بھر جائیں تو بھی خالص توبہ سب کو مٹا دیتی ہے، پھر نا امیدی کس لیے؟ ایک حکایت: ایک بوڑھا آدمی ایک بزرگ کے پاس آیا اور کہا: مجھ کو توبہ کرا دو اور نصیحت کرو۔ بزرگ نے کہا: تم بہت دیر سے آئے ہو۔ اس نے کہا: جو کوئی مرنے سے پہلے آیا ہے، وہ دیر سے نہیں آیا ہے، اس نے جلدی کی ہے۔ بزرگ حق پسند اور منصف مزاج تھے۔ کہا: تم سچے ہو، توبہ کرو۔ جب شرک توبہ سے معاف ہو جاتا ہے تو پھر دوسرے گناہ بدرجہ اولیٰ معاف ہوں گے، البتہ انابت کی توفیق اور ندامت درکار ہے، سو یہ اللہ کے ارادے ہی پر موقوف ہے، ورنہ سیکڑوں بد نصیب توبہ کر کے توڑ دیتے ہیں ۔ بعض لوگ جو عبادت و اطاعت گزار ہوتے ہیں ، اور کبائر سے بچتے ہیں ، انھیں یہ وہم ہوتا ہے کہ ہماری مغفرت ضرور ہو جائے گی، کیوں کہ ہم اطاعت گزار ہیں ، نافرمان نہیں ہیں ۔ اسی طرح کے تصور و یقین کا نام بے فکری ہے، لیکن ان کو کیا معلوم کہ مرنے سے پہلے کیا ہو گا؟ ہو سکتا ہے کہ وہ گناہوں میں پھنس کر وفات پا جائیں تو ساری عبادت و طاعت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ یہ بھی
Flag Counter