Maktaba Wahhabi

582 - 589
﴿ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ﴾ [النمل: ۶۵] [ زمین اور آسمان میں جو بھی ہیں غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے] حدیث میں آیا ہے: (( مَنْ أتَیٰ کَاھِناً فَصَدَّقَہٗ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ و سلم )) [1] [جو شخص کاہن کے پاس آئے، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کردہ فرامین الٰہیہ کا منکر ہے] قاضی ثناء اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اولیا کو غیب کا علم نہیں ہوتا ہے۔ انھیں جو کچھ علم ہوتا ہے، وہ بہ طریق خرقِ عادت یا کشف یا الہام کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اگر کسی کا عقیدہ ہو کہ ولی کو غیب کی بات معلوم ہوتی ہے تو وہ شخص کافر ہے۔ جب غیب کا علم کسی نبی پیغمبر کو نہیں رہا تو کسی ولی، پیر، فقیر کی کیا ہستی ہے؟ رب تعالیٰ نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا: ﴿ قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ﴾ [الأنعام: ۵۰] [کہہ دو! میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب ہی جانتا ہوں ] پھر جب زندہ پیر کو غیب معلوم نہیں ہے تو مردہ پیر کو قبر میں غیب کی خبر کیسے ہو سکتی ہے؟ یاروں کو عقل کا ہیضہ ہو گیا ہے کہ اپنے ایمان کو ہر قبر ہر برہمن کے ہاتھ مفت بیچتے پھرتے ہیں ۔ إنا للّٰہ۔ کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے علمِ غیب ثابت کرتا ہے۔ روافض کے نزدیک ائمہ اہلِ بیت ما کان وما یکون کا علم رکھتے تھے، جبکہ اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو حاصل ہے۔ مدہوش کے تصرفات: نسفی نے کہا ہے کہ بد مست جس کی عقل جاتی رہتی ہے، یعنی اختیار کی باگ اس کے ہاتھ میں باقی نہیں ہے، اگر ہذیان بکتا ہے۔ کوئی کلمہ کفر اس کی زبان سے نکل جائے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا، لیکن مدہوش کے باقی تصرفات جیسے طلاق، عتاق، بیع اور شرا وغیرہ میں اختلاف ہے۔ مدہوش کا اسلام حالتِ مدہوشی میں اس لیے جائز ہے کہ کفر و ردت ایک مذموم چیز ہے۔ عقل کا زائل ہو جانا اس کے لیے عذر ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام مرغوب و مطلوب ہے، ہر طرح اس کا ثبوت
Flag Counter