Maktaba Wahhabi

590 - 589
طرح کہا ہے، مگر ترکِ استدلال پر فاسق نہیں ٹھہرایا۔ یہی مذہب ابو حنیفہ، مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد اور عام فقہا کا ہے۔ بعض علما کا خیال یہ ہے کہ علما کا اس پر اجماع ہے۔ اشعری اور عام معتزلہ اس کو مومن نہیں کہتے۔ ان کے نزدیک وہ تقلید کے دائرے سے باہر نکل کر ہی مومن ہو سکتاہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کا تبصرہ ہے کہ اشعری کا یہ قول ایسا ہے جس سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل کانپنے لگتا ہے۔ یہ قول صرف غلط ہی نہیں بلکہ پوری امت پر ظلم ہے اور اس کی طاقت سے باہر ذمے داری ڈالتاہے۔ وہ صحابہ جو درجہ اجتہاد کو نہیں پہنچے تھے، ان کو تو اجمالی ایمان کفایت کر گیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انھیں کے اندر موجود تھے، مگر ان پر یہ ذمے داری نہ ڈالی کہ تفصیلی استدلالی ایمان لے آؤ۔ ان کی کم علمی کے سبب ان سے یہ نہیں کہا کہ تم مومن نہیں ہو۔ سارے سابقین اولین نے اسی اجمالی ایمان پر اکتفا کیا تھا۔ اسی ایمان پر خیر القرون گزر گئے ہیں ، بلکہ اکثر نے غور کرنے کو حرام کہا ہے اور اسے جہل و ضلال ٹھہرایا ہے۔ جوینی اور قشیری کا خیال ہے کہ یہ قول امام اشعری سے ثابت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے یہ بات صحیح ہو۔ ابن سمعانی کہتے ہیں کہ اصول کی معرفت کو واجب بتلانا متکلمین کے قول کی طرح درستی اور حجت سے بعید تر ہے۔ اجماع: اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ ملتِ اسلام کا ایک گروہ، جن کے بارے میں عام لوگوں کا اکثر یا ہمیشہ خیال ہوتا ہے کہ یہ لوگ اچھے ہیں ، کسی ایک بات پر اتفاق کر لیں ۔ ایسے اتفاق کی بہ نسبت یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی حکم کے ثبوت کے لیے قطعی دلیل ہوتا ہے۔ یہ اجماع اس امر پر ہوتا ہے جس کی اصل کتاب وسنت سے معلوم نہ ہو۔ وہ مسئلہ جس کی سند کتاب و سنت یا استنباط قرآنی یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، اس کے قائل ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ یہ اجماع مذکورہ اجماع سے الگ چیز ہے۔ اسی طرح جس کا ثبوت قرآن و سنت سے نہ ہو، اس کے عدمِ جواز پر لوگوں کا اجماع ہے۔ یہ دونوں اجماع کسی حکم کے ثبوت سے تعلق نہیں رکھتے۔ فرقہ ناجیہ: فرقہ ناجیہ میں اختلاف ہے کہ یہ حال و قال کس فرقہ کا ہے؟ ہر طائفہ کا خیال ہے کہ ناجی وہی ہے۔ حنفیہ تو خود کو صحت پر اور دوسروں کو خطا پر سمجھتے ہیں ۔ فرقہ ناجیہ کی سب سے بہترتفسیر وہ ہے جو خود
Flag Counter