Maktaba Wahhabi

603 - 589
صحابہ نے اس کام کو اتنا اہم اور ضروری سمجھا تھا کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین پر اسے مقدم سمجھا۔ حدیث مذکور کا مطلب یہ ہے کہ جس نے امام وقت سے بیعت نہ کی اور اس کی اطاعت اسے منطور نہ ہوئی تو اس کی موت کافروں جیسی ہو گی۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی وقت امام موجود نہ ہو، جس کی اطاعت کی جائے تو اس وقت کے سارے مسلمان جاہلیت کی موت مریں گے۔ اگر یہ مطلب نہ ٹھہرایا جائے تو پھر حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ جس جگہ مسلمان ہوں ، ان کو چاہیے کہ وہ کسی قریشی کو اپنا امام بنا لیں ، گو وہ ملک کسی غیر مسلم ہی کے ہاتھ میں کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے معاملاتِ دین میں اس کی طرف رجوع کریں اور امورِ دنیا میں حاکم وقت کے مطیع رہیں ۔ طوائف الملوکی کا جواز بھی شریعت سے نکلتا ہے۔ ایک مستقل رئیس کی رعیت پر دوسرے رئیس کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ ہر رئیس اپنی ریاست کا مستقل حاکم ہے۔ رعیت اگر اسی مسلمان حاکم کو اپنا امام بنا لے گی تو کچھ مشکل بات نہیں ہے، البتہ یہ شرط ملحوظ رہے کہ امام قریشی النسب ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر جس کا تسلط ہو، اس کی محکومیت میں رہنا پڑے۔ وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کی بھی اطاعت سے منہ نہیں موڑنا چاہیے، گو وہ فاسق یا ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ انعقادِ خلافت و امامت: خلافت و امامت کا انعقاد کئی طرح سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اربابِ بست و کشاد جیسے اہلِ علم، افسرانِ لشکر اور اہل کار دانشور، جو اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہوں ، جمع ہو کر کسی کی بیعت کر لیں ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت اسی طرح قائم ہوئی تھی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کے لیے وصیت کر جائے، جس طرح ابو بکر صدیق، عمر فاروقw کے لیے کہہ گئے تھے کہ میرے بعد ان کو خلیفہ بنانا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مشورے پر چھوڑ دیا جائے، جس طرح عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلافتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے کیا تھا۔ انھوں نے چھے افراد کو متعین کیا تھا کہ ان میں سے جس کو سب لوگ پسند کریں وہی خلیفہ ہو۔ اسی طرح علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ خود کوئی شخص جامع شروطِ امامت لوگوں پر مسلط ہو جائے، جس طرح
Flag Counter