Maktaba Wahhabi

605 - 589
جنگ و حرب سے حاکم بن بیٹھے تو اب چارونا چار جب تک وہ عمداً نماز نہ ترک کرے اور کفر صریح کا مرتکب نہ ہو، لائقِ اطاعت ہے۔ پھر اگر وہ یہ کام کرتا ہے تو شرعاً اس کی اطاعت واجب نہیں رہتی اور اگر کوئی اس پر خروج کرے تو عاصی نہیں ہو گا۔ شریعت کی رو سے عورت کو امام بنانا بالکل درست نہیں ہے، بلکہ حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ جس قوم نے اپنا کاروبارِ حکمرانی کسی عورت کو سونپ دیا، وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔[1] (بخاری) اس لیے جس ملک میں عورت حاکم ہوتی ہے، وہاں کبھی صلاح و فلاح نہیں دیکھی جاتی۔ فلاح کا کیا ذکر عورت اپنی ہی فلاح و صلاح کو نہیں سمجھ سکتی، اس سے ملک کی فلاح و صلاح کیا خاک ہو سکے گی؟ وہ خود بھی تباہ ہو گی اور دوسروں کو بھی تباہ کرے گی۔ آخر نقصانِ عقل اور نقصانِ دین کا کچھ تو ظاہر نتیجہ ہونا ہی چاہیے۔ إنا للّٰہ۔۔۔! بیعت ایک ہی ہو سکتی ہے: جب ایک امام سے بیعت کر لی گئی، پھر کوئی دوسرا شخص اٹھ کھڑا ہو اور امامت چھیننا چاہے تو اس سے قتال کرنا حلال ہے اور مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے امام کی مدد کریں ۔ پھر اگر باغی کی بغاوت ایسی ہے کہ جس کی تاویل ہو سکتی ہے، مثلاً وہ اپنے یا اپنی قوم یا خود اس امام کی منقصت دور کرنا چاہتا ہو اور اس کی خاطر وہ شرعی دلیل بھی پیش کرتا ہو، گو وہ جمہور مسلمین کے نزدیک مسلم نہ ہو، نیز اس میں کوئی ایسا برہانِ الٰہی بھی نہ ہو جس کا انکار نہ ہو سکتا ہو تو اس صورت میں ایسے باغی کی بغاوت اتنی اہم نہ ہو گی، جتنا ایسے باغی کی بغاوت اہم ہو گی، جو محض فتنہ و فساد اور خونریزی کی خاطر شمشیر بہ کف ہو اور شریعت کو نہ مانتا ہو۔ جب ان دونوں کی بغاوت یکساں نہیں ہے تو ان پر حکم بھی یکساں نہ لگے گا۔ پہلے قسم کے باغیوں کا حکم یہ ہے کہ امام کسی عالم ناصح کے پاس ایسے لوگوں کو بھیج دے گا جو ان کے شبہات دور کرے گا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہی کیا تھا کہ حروریہ خوارج کے پاس ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیج دیا، تا کہ انھیں سمجھا بجھا کر جماعت مسلمین میں لوٹا لائیں ،[2] ورنہ پھر ان سے جنگ ہو۔ ایسے باغیوں کے ساتھی اگر پیٹھ پھیر کر جنگ سے بھاگ جائیں تو انھیں قتل کیا جائے گا نہ زخمی کو مارا
Flag Counter