Maktaba Wahhabi

607 - 589
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص امام ہو یا عالم، مفتی ہو یا قاضی، مگر وہ کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ اپنی مخالفت کے برابر عاصی ٹھہرے گا۔ تھوڑی سی مخالفت سے فاسق ہو گا، اوسط درجے کی مخالفت میں ظالم قرار پائے گا اور اعلیٰ درجے کی مخالفت میں کافر ہو جائے گا۔ اللّٰهم احفظنا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان پر واجب ہے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾ [آل عمران: ۱۱۰] [تم معروف کا حکم کرتے ہو اور منکر سے روکتے ہو] لیکن شرط یہ ہے کہ اس کام سے کوئی فتنہ نہ برپا ہو، کیونکہ یہ کام اس لیے واجب ہے کہ منکر کے انکار سے معروف حاصل ہو، لیکن جب اس کے انکار سے دوسرا زیادہ بڑا منکر رونما ہو جانے کا خدشہ ہو تو پھر نہی عن المنکر کے بجائے سکوت بہتر ہے۔ مثلاً ملوک و روسا پر انکار کرنے سے اگر بغاوت لازم آئے تو یہ شرو فساد کا منبع ہو جائے گا۔ صحابہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جو امرا نماز تاخیر سے پڑھتے ہیں تو کیا ہم ان سے جنگ کرسکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں ، ان سے نہ لڑو۔[1] آپ نے یہ بھی فرمایا: جو شخص اپنے امیر کے منکر کو دیکھے تو اس پر صبر کرے، اس کی اطاعت سے باہر نہ ہو۔[2] اسلام میں فتن اکثر اسی طرح رونما ہوئے کہ منکر پر بالکل صبر نہ کیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں بڑے بڑے منکرات ملاحظہ کرتے تھے، قدرت نہ تھی کہ انھیں بدل دیں ، ناچار صبر کرتے تھے۔ جب اللہ نے مکہ فتح کر دیا، دار الکفر دار الاسلام ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ کعبے کو اس کے اصلی حال پر لوٹا دیں ، مگر فتنے کے خوف سے ایسا نہ کیا۔ اگر انکار کا فائدہ نظر آئے تو زبان سے نصیحت کی جائے، دل سے برا سمجھا جائے، مگر ہاتھ سے لڑنا نہیں چاہیے اور اگر فائدے کی توقع نہیں ہے تو خاموشی بہتر ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ الله نے فرمایا ہے کہ انکار منکر کے چار مراتب ہیں ۔ ایک مرتبہ یہ ہے کہ منکر بالکل دور ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے، گو بالکل
Flag Counter