Maktaba Wahhabi

63 - 589
الزامات اور سلب اختیارات: نواب صاحب رحمہ اللہ کے بے شمار حاسد بھی تھے، جن کے لیے ان کی علمی سرگرمیاں بھی ناقابلِ برداشت تھیں اور ان کا دنیوی جاہ و مرتبہ بھی ایسے لوگوں کے لیے شدید ذہنی اذیت کا باعث تھا۔ انھوں نے انگریزی حکومت سے ان کے متعلق اس قسم کی شکایات کا سلسلہ بہت وسیع کر دیا تھا کہ ان کے والد (سید اولاد حسن) کا تعلق سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید دہلوی رحمہما اللہ کی جماعتِ مجاہدین سے تھا، جو انگریزی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تھی اور اب بھی سرحد پار کے قبائلی علاقوں میں وہ لوگ انگریزوں سے جہاد میں مصروف ہیں ۔ نواب محمد صدیق حسن خاں بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ وہ جماعتِ مجاہدین کے حامی اور انگریزی حکومت کے مخالف ہیں ۔ انبالہ وغیرہ کے وہابی مقدمات کے قیدیوں (مولانا احمد اﷲ عظیم آبادی، مولانا یحییٰ علی عظیم آبادی، مولانا محمد جعفر تھانیسری رحمہم اللہ اور ان کے رفقاے کرام) کا معاملہ بھی جنھیں کالے پانی بھیج دیا گیا تھا، انگریزی حکومت کے سامنے تھا، اس لیے انگریزی حکومت ان شکایات سے متاثر ہوئی اور نواب صاحب رحمہ اللہ کو منصبِ نوابی سے علاحدہ کر دیا گیا۔ نواب صاحب رحمہ اللہ کے خلاف حسبِ ذیل الزامات عاید کیے گئے: ۱۔ ترغیبِ جہاد اور انگریزی حکومت کی مخالفت۔ ۲۔ وہابیت کی تبلیغ، یعنی لوگوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت پراکسانا۔ ۳۔ والیہ بھوپال نواب شاہ جہاں بیگم کو پردہ نشین کر کے ریاست کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لینا۔ ۴۔ جاگیروں کی ضبطی۔ ۵۔ ریاست کے بندوبست میں سختی کرنا۔ اسی قسم کے چند اور الزامات لگائے گئے تھے۔ نواب صاحب رحمہ اللہ کو ۱۰؍ شعبان ۱۲۸۹ھ (۱۳؍ اکتوبر ۱۸۷۲ء) کو نوابی کا خطاب اور دیگر اختیارات دیے گئے تھے۔ پھر تیرہ سال بعد ۱۴؍ ذیقعدہ ۱۳۰۲ھ (۲۶؍ ستمبر ۱۸۸۵ء) کو تمام اختیارات سلب کر لیے گئے۔ نوابی کا خطاب بھی واپس لے لیا گیا۔ اس کے بعد صرف اتنا ہوا کہ نواب صاحب رحمہ اللہ کی اہلیہ محترمہ نواب شاہ جہاں بیگم کی کوششوں سے ابتداے ذی الحجہ ۱۳۰۷ھ (اگست ۱۸۹۰ء) کو نوابی
Flag Counter