Maktaba Wahhabi

68 - 589
غرض کہ چہار شنبہ بست و نہم ماہِ جمادی الاخریٰ ۱۳۰۷ھ کو ناگاہ جی آیا کہ آج ۳ بجے سے ان کے پاس جاؤں ، چنانچہ جلدی سے کھانا کھا کر ان کے پاس حاضر ہوا تو تکیے پر سر رکھے ہوئے تھے۔ میں نے سلام کیا تو سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اچھا ہوا سویرے آگئے۔ پھر باتیں کرتے رہے۔ بے قراری زیادہ تھی۔ دوا علاج ہوتا رہا، مگر کچھ نفع نہیں ہوتا تھا۔ اسی طرح ہوتے ہوتے رات کے بارہ بج گئے۔ اس وقت یا اس سے قبل کہا: بھائی آگرہ سے ہماری کتاب نہیں آئی؟ میں نے کہا: وہ چھپ گئی۔ اس کا صحت نامہ بھی تیار ہو کر آگیا۔ فرمایا: اچھا ہوا۔ مہینا پورا ہوا اور ہماری تالیف بھی پوری ہوئی۔ پھر کوئی دوا لایا تو پی لی۔ ذرا دیر بعد میں نے کہا: کچھ آپ کو تسکین ہے؟ فرمایا: کسی قدر! پھر کہا: اب دوا نہیں پییں گے۔ اتنے میں ایک بج گیا۔ ذرا دیر بعد بے قراری ہوئی تو بسرعت ٹوپی سر سے اتار کر ڈال دی اور ذرا پاؤں پھیلائے اور چہرے پر پسینہ آیا۔ بہ کشادہ پیشانی بہ کمال درستیِ ہوش و حواس جان بحق تسلیم کی۔ اس وقت ایک بج کر ۳۵ منٹ ہوگئے تھے۔ إنا للّٰه و إنا إلیہ راجعون۔رحمہ اﷲ تعالیٰ۔ بعد نمازِ صبح غسل دیا گیا۔ نمازِ جنازہ میں ایک خلقِ کثیر تھی۔ کئی بار نماز ہوئی۔ بروز پنج شنبہ یکم رجب ۱۳۰۷ھ (۱۸؍ فروری ۱۸۹۰ئ) کو قبل دوپہر اپنے خاص قبرستان میں مدفون ہوئے۔‘‘ نواب صاحب رحمہ اللہ نے عیسوی حساب سے ۵۷ برس چار مہینے چار دن اور ہجری حساب سے ۵۹ برس ایک مہینا نو دن عمر پائی۔ کتب خانہ اور اولاد: نواب صاحب کا بہت بڑا کتب خانہ تھا، جو ان کی وفات کے بعد دار العلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ نواب صاحب کی اولاد دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی۔ بیٹوں میں سے ایک کا نام سید نور الحسن خاں کلیم تھا اور چھوٹے کا سید علی حسن خاں طاہر۔ ذیل کی سطور میں دونوں کا مختصر الفاظ میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔ سید نور الحسن خاں کلیم بدھ کے روز ۲۱؍ رجب ۱۲۷۸ھ (۲۳؍ مارچ ۱۸۶۲ء) کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ان کی پرورش خدا ترسی، علم دوستی اور صلاح و تقویٰ کے اس ماحول میں ہوئی، جس
Flag Counter