Maktaba Wahhabi

81 - 589
عبارت کا پورا متن اور اس کا صحیح مطلب: اس عبارت کا ایک بڑا اہم لفظ مصنف ’’سیرت والا جاہی‘‘ نے نقل نہیں کیا ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پوری عبارت قارئین کے سامنے رکھی جائے، تاکہ نواب صاحب کا صحیح منشا ان کی سمجھ میں آجائے۔ نواب صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’امروز کہ چہل وہشت مرحلہ از عمر گرامی طے شدہ با آنکہ استخواں در تن ناتواں کہنہ شد، و موئے سر بسفیدی چوں شعلۂ تاباں گردید، آثار گرمی درونی و سوز باطن ہمچناں افزائش دارد و بسا نکات دل افروز بر فراز ظہور می آرد، در آئین مالک رحمہ اللہ و شافعی رحمہ اللہ و ابو حنیفہ رحمہ اللہ و ابن حنبل رحمہ اللہ گوناگوں دریافت اصولاً و فروعاً بہم آمد۔ و بقلدوزی بخت بیدار، و تکاپوی طالع ساز گار، برپایۂ اجتہاد مجتہداں وقوف حاصل شد، ہر چند باقتفائے نیا کان بزرگ و دانشمندان سترگ در ظاہر انتساب بروش ابو حنیفہ رحمہ اللہ معروف است، لکن ہموارۂ گفتار و کردار رابا تباع سنت آرائش دارد۔‘‘ [1] ’’آج جب کہ میں اپنی عمر عزیز کی ۴۸ منزلیں طے کر چکا ہوں ، بدن کی ہڈیاں بھی پرانی ہوگئی ہیں ۔ سر کے بالوں میں سفیدی چمک رہی ہے۔ سوز باطن بھی ترقی پر ہے۔ امام مالک و امام شافعی و امام ابو حنیفہ و امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہر ایک کی فقہ و آئین کو اصولاً و فروعاً ہر طرح سے جان چکا ہوں اور خوش قسمتی سے مجتہدوں کے پایۂ اجتہاد سے بھی واقفیت حاصل کر چکا ہوں ۔ ایسی حالت میں بزرگوں کی اتباع اور دانشمندوں کی پیروی میں ظاہری طور پر امام ابو حنیفہ کے طریقے کی طرف انتساب (چاہے) جتنا بھی مشہور ہو، لیکن (اس انتساب کے معنی یہ نہیں کہ میں ان کا مقلد ہوں ) میں اپنے گفتار و کردار کو تقلید کے عیب سے بچا کر اتباعِ سنت کی زینت سے آراستہ کرتا ہوں ۔‘‘ پوری عبارت کے معنی اور مفہوم پر غور کیجیے! نواب صاحب نے سب سے پہلے اپنی عمر کی مدت بیان کی ہے، جس سے ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں ، جو طبعی طور پر انسان کے فہم و دانش کے کمال کی منزل مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اﷲ تعالیٰ
Flag Counter