Maktaba Wahhabi

88 - 589
روایت خفض سے، اور جیسے پڑھنا کسی سورت کا ہمراہ فاتحہ کے ۔۔۔ اور جیسے تشہد اوسط ۔۔۔ اور جیسے وہ ذکر جو ہر رکن میں آئے ہیں ، مثل تکبیرات رکوع و سجود و قیام و قعود کے، پھر بعد تشہد اخیر کے جونسی دعا چاہے، ماثور یا غیر ماثور مانگے۔‘‘ (ص: ۹۔ ۱۰) اس کے بعد نواب صاحب نے ’’فائدہ‘‘ کے ذیل میں ان حدیثوں کا ترجمہ کیا ہے، جن میں تعدیلِ ارکان کی تعلیم اور تورک کے ساتھ نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، پھر فرماتے ہیں : ’’اب چاہیے کہ کوئی نمازی کیفیتِ نماز میں اس ہیئت سے تجاوز نہ کرے، ورنہ اس کی نماز میں خلل ہوگا۔‘‘ (ص: ۱۱) ان تصریحات کی موجودگی میں کسی کا یہ بیان کس طرح قابل اعتبار سمجھا جائے کہ ’’والا جاہ نماز پنج گانہ حنفی طریقہ پر پڑھتے تھے۔‘‘ مسک الختام وغیرہ میں تو نواب صاحب نے ان مسائل کے بارے میں اہلِ حدیث کے موقف و مسلک کی تائید اس طرح کی ہے کہ اس کے خلاف حنفیہ کے شبہات و دلائل کے جوابات بھی دیے ہیں ۔ نواب صاحب باقرار خود اہلِ حدیث مشہور تھے: یہی وہ حقائق ہیں ، جن کی بنا پر نواب صاحب اہلِ حدیث مشہور تھے، جیسا کہ انھوں نے خود اس کا اقرار کیا ہے۔ لکھتے ہیں : ’’ایک محنت مجھ پر یہ آئی کہ ہنگامۂ انقلاب سن کر اہلِ عزائم نے آکر گھیرنا شروع کیا، عامۂ خلق کے ذہن میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ امرا و رؤسا معتقد اعمال کے ہوتے ہیں ، حالانکہ میں اول امیر نہیں ہوں ، دوسرے علم سے فقیر بھی نہیں ہوں کہ دام تزویر اہلِ شرک و بدعت میں گرفتار ہو جاؤں ۔ میں تو اپنے اعتقاد میں کسی شخص کا معتقد نہیں ہوں ، خصوصاً ان فقراء و مشائخ کا جو اس زمانۂ جہل میں دکان داری کرتے پھرتے ہیں ۔ مجھ کو ان کی حرکات بے برکات پر نہایت تعجب آتا ہے کہ باوجود اس جہل و خبث و شرک و بدعت کے یہ کسی موحد کو پھانسنے چلے۔ ان حمقا نے اتنا بھی نہ جانا کہ میں تو اہلِ حدیث مشہور ہوں اور تقویۃ الایمان و رسائلِ توحید کا پابند ہوں ۔ میرے سامنے کسی رمال جفار منجم عزیمت خواں کی اتنی بھی قدر نہیں ہے، جتنی کہ دواب کی قدر نظرِ انسان میں ہوتی ہے، کیونکہ موحد
Flag Counter