Maktaba Wahhabi

106 - 548
کا کام پہنچانا ہے اور ہمارا کام اس کا ماننا اور تسلیم کرنا ہے۔ توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو اسے بخشنا منظور ہوتا ہے تو وہ اس کو دنیا میں رشد وہدایت اور اتباع واخلاصِ عمل کی توفیق دیتا ہے اور جس کو اسے بخشنا منظور نہیں ہوتا تو اس کو صراطِ مستقیم سے گمراہ کر کے مختلف راہوں کا متبع بنا دیتا ہے۔ ہدایت ونجات کی اساس: علماے محققین نے فرمایا ہے کہ ہدایت و نجات کی اساس دو امر پر موقوف ہے۔ ایک اخلاص، دوسرے صواب۔ اخلاص سے مراد تصحیحِ عقائد ہے کہ اللہ پاک کے سوا ہرگز کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے، گو وہ پیغمبر ہو، پھر کسی ولی یا صنم یا بُت کا کیا ذکر ہے، کیونکہ اللہ ہر گز کسی عمل کو قبول نہیں فرماتا ہے، جب تک کہ وہ عمل خالصاً اس کی ذات پاک کے واسطے نہ ہو، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ﴾ [الزمر: ۳] [خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خالص عبادت کرنا ہے] ’’صواب‘‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ عمل سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو، اس لیے کہ جو قول وفعل سنتِ مطہرہ کے مخالف ہوتا ہے، گو نظرِ خلائق میں کیسا ہی عمدہ اور بہتر کیوں نہ ہو، اس پر کچھ ثواب نہیں ملتا ہے، کیونکہ اشیا کا حسن وقبح شرعی ہے نہ کہ عقلی۔ جس امر کو ہم اپنی رائے و اجتہاد سے حسنہ کہیں گے اور شارع علیہ السلام نے اس کا حکم نہیں کیا ہے تو وہ امر ہر گز نفس الامر میں مقبول نہ ہو گا، بلکہ مردود ہو گا۔ 5۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ ))[1] [جس نے ہمارے اس دین میں اپنی طرف سے کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے] اس کو شیخین اور ابو داؤد نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ 6۔دوسری روایت میں ہے: (( مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ )) [2]
Flag Counter