Maktaba Wahhabi

107 - 548
[جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کی بابت ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے] یہ حدیث تمام غیر شرعی اعمال کے لیے قامع بنیان ہے، جس طرح کہ حدیث اول قاطع جمیع علائق محدثہ ہے۔ یہ اس بات پر نص صریح اور دلیل صحیح ہے کہ جملہ حسنات مبتدعہ مردود ہیں، کیونکہ اُن کا امر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نہیں فرمایا ہے، بلکہ خود امت نے ان کو اپنی خواہش سے احداث وایجاد کیا ہے۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے استحسان کو ابتداع ٹھہرایا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سدِ ذرائع کے قائل ہیں، ظاہریہ قیاسات کے منکر ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ اجماع کے وجود کا انکار کرتے ہیں۔ ان سب ائمہ کا مطلب یہ ہے کہ اتباعِ سنت مطہرہ میں محوضت صرفہ اور صرافت محضہ ہو۔ کسی کی راے، بدعت اور ہویٰ کا ادنا لگاؤ بھی پایا نہ جائے، تب کہیں اسلام خالص، ایمان کامل اور احسان محض کا وجود ہو گا۔ فائدہ: جو اعتقاد یا قول یا فعل ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے نہ انھوں نے کیا اور نہ کسی کو کرتے دیکھا اور منع نہ کیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ] میں جاری ہوا اور نہ کسی صحابی نے اس پر انکار کیا اور نہ صحابہ کے بعد زمانہ تابعین وتبع تابعین میں انکار کے بغیر رائج ہوا اور نہ ان چاروں زمانوں میں اس کی نظیر پائی گئی اور نہ مجتہدین نے اپنے اجتہاد سے اس کو ثابت رکھا، بلکہ لوگوں نے اپنی طرف سے ان قرون کے بعد اسے نکالا تو وہ عقیدہ اور قول وعمل بالکل بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں ہے، خواہ وہ بات خود نئی ہو یا خود نئی نہ ہو، مگر اس اعتقاد اور قول وفعل میں کوئی نئی بات اپنی طرف سے نکالے جو خیر القرون میں مروج ہو تو وہ بھی داخل بدعت اور شامل ضلالت ہے، جس کو لوگ شرعی کام کی طرح تقید واہتمام سے بجا لائیں اور موجب ننگ و تعریف جانیں گو اس میں ثواب نہ سمجھیں، اسی طرح جو امور ان قرون مشہود لہا بالخیر میں بلا انکار رائج ہو چکے ہیں اور مجتہدین کے اجتہاد سے کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ کی مخالفت کے بغیر ثابت ہیں، وہ داخل سنت ہیں۔ ایسے امر کو سنتِ حکمیہ کہتے ہیں، نہ کہ بدعتِ حقیقیہ۔ واللّٰہ أعلم۔ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو اب اس اجمال کی تفصیل آیندہ ابواب وفصول سے دریافت ہو جائے گی۔ اے اللہ! ہمیں کلمہ طیبہ کے معانی پر زندہ رکھ اور عقیدہ وعمل کے طور پر ان معانی پر ہی ہمیں وفات دے۔ یہ کام تجھ پر کچھ دشوار نہیں ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter