Maktaba Wahhabi

109 - 548
جائیں، کیونکہ انھیں نئی نئی باتوں اور جدید رسموں کے رائج ہونے سے قرآن چھوٹا ہے اور آپس میں مسلمانوں میں پھوٹ پڑی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ اور رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔ اس آیت میں ایک امر ہے، ایک نہی ہے اور ایک خبر ہے۔ امر میں اصل وجوب ہے، نہی میں اصل تحریم ہے اور خبر میں اصل عبرت ہے۔ اختلاف و افتراق کی ممانعت: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ﴾ [آل عمران: ۱۰۵] [تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنھوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، ان ہی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے] جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ یہی لوگ تاویلاتِ فاسدہ کرنے کی بنا پر دین میں متفرق اور مختلف ہو گئے۔ 1۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں اس کی تصدیق آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل بہتر [۷۲] فرقے ہو گئے اور میری امت تہتر [۷۳] فرقے ہو جائے گی۔ وہ سب آگ میں جائیں گے، مگر ایک ملت والے۔ پوچھا: وہ کون ہیں؟ فرمایا: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ ))[جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں] اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1]مسند احمد اور سنن ابو داؤد میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: ’’بہتر(۷۲) آگ میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور وہ جماعت ہے۔‘‘[2] اجتماعیت کی اہمیت: 2 اسی جماعت کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
Flag Counter