Maktaba Wahhabi

126 - 548
[دینِ اسلام کا آغاز اجنبی کی صورت میں ہوا اور آغاز کی طرح ہی وہ عنقریب لوٹے گا، پس غربا کے لیے بشارت ہے اور وہ یہ لوگ ہیں جو میرے بعد میری اس سنت کو درست کریں گے جس کو لوگوں نے خراب کر دیا ہے] اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ 13۔صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صرف اتنے الفاظ مروی ہیں: (( بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِیْباً، وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ، فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَائِ )) [1] [اسلام کی ابتدا اجنبیت کے ماحول میں ہوئی اور ابتدا ہی کی طرح عنقریب وہ لوٹ جائے گا، پس غربا کے لیے بشارت ہے] غربتِ اسلام: یعنی آخر زمانے میں دینِ اسلام کی باتیں ایسی ہو جائیں گی جیسے کوئی مسافر ہوتا ہے کہ اس کو کوئی نہیں پہچانتا اور اس کو لوگ بیگانہ جانتے ہیں۔ ابتدا میں بھی اسلام کو کوئی نہیںجانتا تھا اور عرب کے کافر مسلمانوں پر انگشت نمائی کرتے تھے، ویسے ہی اخیر زمانے میں دینِ اسلام کی اصل باتوں کو کوئی نہیں پہچانے گا اور مسلمانوں پر لوگ انگشت نمائی کریں گے۔ غرض کہ یہ حدیث غربتِ اسلام پر دلیل ہے اور ان غربا کے واسطے بشارت ہے جو سنت کو جاری کریں اور بدعت کو مٹائیں۔ ان کا بڑا مرتبہ ہے۔ اور یہ بات دین داری کی ہے۔ اگر ان بدع و اہوا اور تقلیداتِ رجال کو غربت کا موجب نہ سمجھا جائے تو پھر کون سی شے اس غربت کی مصداق ٹھہرے گی؟ اگر یہی مفاسدِ دین کے مصلح غربا نہ ہوں گے تو پھر وہ کون غربا ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے؟ رسالہ ’’کشف اللثام عن غربۃ أھل الإسلام‘‘ میں اس اجمالی غربت کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ بنو اسرائیل کی تقلید اور راہِ نجات: 14۔سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ میری امت پر وہ حال آئے گا جو بنی اسرائیل پر آیا تھا، جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی وہ شخص ہو گا جو یہ کام کرے گا۔ بے شک بنی اسرائیل
Flag Counter