Maktaba Wahhabi

131 - 548
ہوں گے اور اس کو برا کہیں گے، بلکہ اس کی جان وآبرو کھونے کی فکر میں رہیں گے اور وہ سنت کے موافق صبر کرے گا، اس لیے اتنا بڑا ثواب پائے گا۔‘‘[1] انتہیٰ کتاب و سنت کی اتباع کے علاوہ ہر راستہ گمراہی ہے: 24۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم یہود سے کچھ باتیں سنتے ہیں وہ ہم کو اچھی معلوم ہوتی ہیں، کیا ہم ان کو لکھ رکھیں؟ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم متحیر ہو جس طرح کہ یہود ونصاریٰ متحیر ہیں؟ میں تو اس ملت کو تمھارے پاس صاف ستھرا لایا ہوں۔ اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو گنجایش نہیں ہوتی مگر میری پیروی کی۔ اس کو احمد اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔[2] یہ حدیث دو امر پر دلیل ہے۔ ایک اس شریعت کا واضح وظاہر ہونا۔ اس میں قیاسات وتفاریع کے عدمِ احتیاج کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے غیر کا اتباع جائز نہ ہونا، گو پیغمبر کیوں نہ ہو، چہ جائے کہ اتباعِ آحادِ امت اور تقلیدِ مجتہدین ملت کی ہو۔ آیتِ کریمہ: ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء: ۵۹] میں اختلاف وتنازع کے وقت قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے، پھر اس رجوع کو ایمان باللہ اور یوم آخر پر معلق کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص باہمی نزاع کا فیصلہ کتاب وسنت کی طرف نہیں لوٹاتا وہ اللہ اور قیامت کا منکر ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اختلاف کے وقت کسی امر کو انھیں دو اصل اصیل کی طرف لوٹانا ہے نہ کہ بے دلیل قیاس و تفریع کی طرف لوٹانا۔ مطلب یہ ٹھہرا کہ جس دین میں نقصان ہوتا ہے اور اس کے سب احکام واضح نہیں ہوتے تو اس دین کے علما اور امت والے حیران ہوتے ہیں کہ فلاں کام میں کیا حکم کیا جائے اور کس مسئلے میں کیسا فتویٰ ہونا چاہیے تو وہ دوسرے دین والوں سے سیکھ کر کام کرتے ہیں، سو اس دین اسلام میں سب احکام عموماً و خصوصاً بیان ہو چکے ہیں، کوئی کسر باقی نہیں ہے اور نہ کسی طرح کا دھوکا و شبہہ ہے۔ اس دین سے سب اگلے دین منسوخ ہو چکے ہیں۔ اس وقت میں اگر یہودیوں کے پیغمبر بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی اسی شریعتِ غرا اور ملتِ بیضا پر عمل کرتے، پھر یہود ونصاریٰ کس قطار وشمار میں ہیں اور ملا، مولوی، شیخ، مجتہد، پیر مُرشد کی کیا گنتی وہستی ہے کہ کوئی ان سے ان کی
Flag Counter