Maktaba Wahhabi

132 - 548
راے وقیاس کی باتیں سیکھے؟ ہم اگر ان سے دین کی باتیں لیں تو گویا ہم نے اپنے دین کو ناقص اور ان کے دین یا اجتہاد کو کامل جانا، سو اس بات سے ایمان میں نقصان آتا ہے۔ دینِ حق میں جھگڑا کرنے کی مذمت: 25۔ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فرمایا ہے کہ کوئی قوم ہدایت کے بعد گمراہ نہیں ہوئی جس پر وہ پیشتر تھی لیکن جھگڑا دی گئی۔ پھر یہ آیت پڑھی: ﴿مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِِلَّا جَدَلًا بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ﴾ [الزخرف: ۵۸] [تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو] اس کو احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔[1] اس جگہ ہدایت سے مراد قرآن وحدیث ہے۔ جو کوئی ان کو چھوڑ دیتا ہے وہ گمراہ ہو کر جھگڑے میں پڑ جاتا ہے۔ اس حدیث سے علم جدل کی مذمت بہ خوبی ثابت ہوتی ہے اور آیتِ شریفہ بھی اس کی موید ہے۔ یہ جدل ایک عمردراز سے سارے فِرق اسلام میں جاری وساری ہے، جتنے بدعات و محدثات اس ملتِ حقہ میں زمانۂ صدر اول سے اب تک حادث ہوئے ہیں، یہ سارا اسی جدل کا نتیجہ ہے، فقط ایک گروہ اہلِ حدیث اس جنگ سے عافیت میں رہا ہے۔ وللّٰہ الحمد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اکثر کافر لوگ حق بات کو جانتے تھے، مگر پھر جھگڑتے اور بحث کرتے تھے۔ اللہ نے قرآن میں کہا کہ یہ نرے جھگڑالو ہیں۔ یہ گفتگو تحقیقِ حق کے واسطے نہیں کرتے، بلکہ اس لیے کہ حق کو مکرا لیں۔ سبحان اللہ! ایک مسلمان تو قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ فلاں کام ناجائز یا بدعت ہے، اس کو نہ کرنا چاہیے اور دوسرا اس کے مقابلے میں یہ کہتا ہے کہ میں تو اس کام کو جائز اور نیکی سمجھوں گا، کیونکہ یہ کام میرے باپ دادے یا شہر کے لوگ یا میرے پیر یا شیخ یا استاذ کرتے ہیں!! غرض کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بزرگوں کی نکالی ہوئی بدعت سے کم تر اور حقیر تر ٹھہرا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا گمراہی اور ہلاکت ہو گی؟! گمراہی سے سلامتی کیسے؟ 26۔امام مالک بن انس رحمہ اللہ مرسلاً کہتے ہیں کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
Flag Counter