Maktaba Wahhabi

142 - 548
جہاد کرے اور مجاہدوں کو اپنے بیچ میں جگہ دے اور مال وہتھیار اور کھانے پینے سے ان کی مدد کرے۔ یہ آیت انصار کے حق میں اتری تھی۔ انھوں نے مہاجرین مکہ کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا۔ اسی طرح جس زمانے میں پھر ایسا موقع ملے اور کوئی مسلمان یہ کام کرے تو یہ اس کے پکے مومن ہونے کی علامت ہے۔ یہ اس لیے کہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص سبب کا نہیں۔ ہجرت وجہاد کے لیے آداب وشروط ہیں۔ جب وہ پائے جائیں تب کہیں یہ حکم ثابت ہو گا۔ بہت سے نام کے مسلمان مکے کو ہجرت کر کے جاتے، پھر وہاں سے تنگیِ معاش وغیرہ امور کے سبب بھاگ آتے، اسی طرح اکثر لوگ ملک گیری کے واسطے قتال کرتے ہیں اور اس کا نام جہاد رکھ دیتے ہیں، حالانکہ وہ فتنہ ہوتا ہے نہ کہ جہاد۔ یہ بات معلوم رہے کہ دین کا جو کام ہدایتِ دین اور امرِ شارع کے موافق نہیں ہوتا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے نہ وہ کام دین کا کام ٹھہرتا ہے اور نہ اس کا فاعل دیندار وایماندار سمجھا جاتا ہے، گو وہ اپنے خیال مختل میں اس کو ایمانداری سمجھے۔ اس جگہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کا اعتبار ہے نہ کہ غیر کی خیال بندی کا۔ ﴿اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ﴾ [المائدۃ: ۲۷] [اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں ہی کا عمل قبول فرماتا ہے] ایمان کی چوتھی علامت: چوتھی آیت میں فرمایا ہے: ﴿اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ﴾ [الحجرات: ۱۵] [ایماندار وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے پھر شبہہ نہ لائے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں لڑے وہی لوگ سچے ہیں] یعنی یہ بھی ایمان کا ایک پتا ہے کہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم وارشاد میں شک وشبہہ کو جگہ نہ دے، اس لیے کہ شبہہ لانا، یقین کرنے کے مخالف ہوتا ہے۔ جب یقین میں دھوکا ہوا تو پھر ایمان کہاں قائم رہ سکتا ہے؟ یہ اہلِ ایمان کا تیرھواں وصف فرمایا۔ اس وصف کا تحقق اس وقت ہونا چاہیے کہ جب لڑائی کا موقع ہاتھ آئے اور فتنہ نہ ہو۔
Flag Counter