ان آیتوں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ عمل ایمان میں داخل ہے اور ہر انسان کا ایمان بڑھتا گھٹتا رہتا ہے۔ طاعت سے زیادتی ہوتی ہے اور وہ زیادتی جنت الفردوس میں لے جاتی ہے اور معصیت سے کمی ہوتی ہے اور وہ کمی دوزخ کی سیر کراتی ہے۔ اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کے طلب گار ہیں اور جہنم سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
اسلام کی بنیاد:
1۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فرمایا ہے:
(( بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ )) [1]
اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔
یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ ایک اللہ کے اکیلے معبود ہونے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اور رسول ہونے کی گواہی دینا، دوسری نماز قائم کرنا، تیسری زکات دینا، چوتھی حج کرنا، پانچویں رمضان کا روزہ رکھنا۔
ان کاموں کو کرنے سے آدمی مسلمان ٹھہرتا ہے جبکہ سچے دل سے کرے اور بلاعذر ان کے بجا نہ لانے سے مسلمان نہیں رہتا خواہ ان میں ایک بجا نہ لائے یا دو یا تین یا چار۔ اس حدیث کی مستقل شرح رسالہ ’’ضوء الشمس‘‘ میں ہے۔[2] اس جگہ مطلب یہ ٹھہرا کہ شہادت یہ ہوتی ہے کہ جو بات آدمی کے نزدیک بلا شک وشبہہ یقین کامل سے ثابت ہو، اس کی خبر دے تو وہ سچا گواہ ہے، ورنہ جھوٹا، گو وہ بات حقیقت میں سچی ہو۔
منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: ﴿ نَشْھَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہ﴾ [المنافقون: ۱] [ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں]، لیکن وہ دل سے اس بات پر یقین نہیں لاتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
|