Maktaba Wahhabi

146 - 548
ہیں۔ مسلمان کو لازم ہے کہ ان کا علم حاصل کر کے جہاں تک بن سکے، انھیں عمل میں لائے، معلوم نہیں کہ کون ساشعبہ نجات کا سبب ہو جائے؟ پھر جو کوئی جس قدر شعب کو بجا لائے گا، وہ اتنا ہی مغفرت وجنت کا استحقاق حاصل کرے گا، اب چاہے سب بجا لائے یا بعض، یہ اس کی ہمت ہے۔ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : 3۔حدیثِ انس رضی اللہ عنہ میں مرفوعاً آیا ہے: (( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ )) [1] [تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اس کے باپ اور بیٹے اور سارے لوگوں سے دوست تر ہوں] اس کو شیخین نے روایت کیا ہے۔ یعنی جب کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں بھر سے زیادہ چاہتا ہے، سب کی مرضی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کو مقدم رکھتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب کے قول سے بڑھ کر جانتا ہے اور کسی کی بات اورفعل کو آپ کی سنت پر مقدم نہیں رکھتا ہے، تب کہیں وہ مسلمان ٹھہرتا ہے، وگرنہ نہیں۔ محبت باتفاق اہلِ علم و معرفت اسی کا نام ہے کہ محبوب کی مرضی کے موافق سب کام کرے۔ اس کا نام محبت نہیں ہے کہ فقط زبان سے کہہ لیا کہ ہمیں محبت ہے اور ہم دل سے دوست دار ہیں، مگر محبوب کا کہا نہ مانا یا اس کی مرضی کے خلاف کام کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر کسی فقیر، پیر، درویش، عالم، مولوی، ملا، ماں باپ، امیر، وزیر، رئیس اور بادشاہ کا کام یا قول یا حال حدیث کے خلاف معلوم ہو تو اس کو رد کر دے، پھر اگر کوئی اس کو مانے اور حدیث کو نہ مانے تو وہ مومن نہیں، کیونکہ حدیث میں اس شخص سے ایمان کی صریح نفی کی گئی ہے۔ جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں کہ وہ بے ایمان ہے، اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ مسلمان ہے؟! ایمان کی مٹھاس: 4۔انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: (( ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ بِھِنَّ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ: مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَا ھُمَا، وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لَا یُحِبُّہٗ إِلَّا لِلّٰہِ، وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِيْ
Flag Counter